کراچی میں 16 اپریل کو اپنے گھر کے باہر سے ’غائب‘ ہونے والی دعا زہرہ کی گلی میں اب کئی دنوں کے شور کے بعد خاموشی ہے مگر دعا کے والد کے مطابق یہی خاموشی لاہور پولیس کی جانب سے بھی ہے جو ان سے بالکل تعاون نہیں کر رہی۔
دعا زہرہ کاظمی کے والد مہدی علی کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے سندھ حکومت کی مدد سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس پر کام چل رہا ہے اس کے علاوہ عید کے بعد ہم لاہور ہائی کورٹ میں بھی دعا کی واپسی کے لیے درخواست دائر کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میڈیا پر یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ دعا نے اپنے نکاح کے دوسرے دن ہی مجھے اپنا نکاح نامہ واٹس ایپ پر بھیج دیا تھا، اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ دعا نے مجھے اپنے نکاح کے دوسرے روز اپنا نکاح نامہ نہیں بھیجا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ میرا اور میری فیملی کے تمام افراد کے فون ابھی بھی زیر تفتیش ہیں۔‘
’اگر دعا کا نکاح نامہ مجھے واٹس ایپ پر موصول ہوتا تو پولیس اور ایجنسیز کو بھی یہ بات معلوم ہوتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ دعویٰ غلط ہے، اس سے ناصرف ہمیں بلکہ پولیس کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ ہمیں اور پولیس کو یہ معلوم تھا کہ بچی کا نکاح ہوگیا ہے پھر بھی ہم نے دعویٰ کیا کہ بچی اغوا ہوگئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’میری طرح سندھ پولیس بھی دعا کے نکاح سے پوری طرح نا واقف تھی۔ جس دوران انہیں معلوم ہوا تب ہی ہمیں بھی اس کا علم ہوا۔‘
اپنی بیٹی سے رابطے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’میرا قطعی طور پر دعا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری بیٹی کس حال میں ہے اور کہاں رہ رہی ہے۔‘
’حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں سے جو آئی او گئے تھے انہوں نے ظہیر احمد کا نہ ہی کوئی پتہ لیا اور نہ ہی فون نمبر۔ لاہور پولیس نے بھی اس کی جانچ نہیں کی کہ وہ میری بچی کو کہاں لے کر جا رہا ہے۔ ابھی تک میرا ظہیر احمد یا اس کی فیملی میں کسی سے رابطہ نہیں ہوسکا۔‘
مہدی علی کاظمی کے مطابق ’میں ابھی بھی اس ہی بات پر قائم ہوں کہ جو ظہیر نامی لڑکا ہے وہ ایک ڈمی ہے اور اس کے پیچھے ایک مافیا موجود ہے۔ وہ لوگ دعا کو صرف اسی لیے سامنے لے آئے کیونکہ یہ کیس بہت ہائی پروفائل ہوگیا تھا۔ لاہور پولیس کی جانب سے میرے ساتھ بالکل بھی کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت مجھے پوری طرح سپورٹ کر رہی ہے۔ یہاں پر ہمیں ایک قانونی ٹیم فراہم کی گئی ہے جن کی مدد سے ہم نے ہائی کورٹ میں پیٹیشن فائل کی ہے۔ ہم عید کے بعد جب لاہور جائیں گے تو وہ بھی سندھ حکومت کے نمائندوں کے ساتھ جائیں گے۔‘
چند روز قبل دعا زہرہ سے تعلق ظاہر کرنے والے لاہور میں اس کے کچھ رشتےدار، ٹیچر اور ہمسائے کے حوالے سے مہدی علی کاظمی نے کہا کہ ’یہ تمام لوگ ڈمی ہیں یعنی جعلی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ بچی کہاں ہے لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم ہے۔ یہ ان ہی لوگوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جو دعا کو لے کر گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ دعا کا نکاح نامہ جعلی ہے اور اس کی عمر 14 سال ہے جس کے میرے پاس تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ اگر ایک فیصد بھی ہم یہ مان لیں کہ دعا اپنی مرضی سے گئی ہے اور وہ وہاں خوش اور واپس نہیں آنا چاہتی تو وہ ہمیں کم از کم بتاتی ضرور۔‘
’کیا آپ کو میری بچی دعا کا چہرہ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ خوش ہے؟ اس سے تو ابھی تک کوئی رابطہ بھی نہیں ہوسکا ہے۔‘