پاکستان کے بہت سے قبرستان جرائم کی آماجگاہ ہیں جہاں پر نشے کے عادی افراد بیٹھ کر ہیروئن یا چرس پی رہے ہوتے ہیں، کچھ فارغ تاش کھیل رہے ہوتے تو کچھ لوگ اس کو جسم فروشی کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
قبرستانوں میں جادو ٹونہ بھی کیا جاتا ہے جہاں لاشوں کی بےحرمتی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے قبرستان بھوتوں کے مسکن کا نظارہ دیتے ہیں۔ گھاس بڑھی ہوئی، کوئی روشنی یا صفائی نہیں، قبر پر قبر بنا دی جاتی اور متعدد قبرستانوں کی چار دیواری نہیں۔ جنگلی جانور کھلے عام گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کوئی شخص رات کے وقت قبرستان جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
گورکن اکیلا جرائم پیشہ افراد کو تو نہیں روک سکتا کیونکہ یہ کام حکومت کا ہے کہ چار دیواری کا بندوبست کرے، گھاس مکمل طور پر کٹی ہوئی ہو، رات کو روشی کا مناسب انتظام ہو، پولیس وہاں پر جادوگروں اور جرائم پیشہ افراد کو جانے نہ دے۔ اگر کوئی قبرستان میں غیراخلاقی حرکت کرے یا اس کو جرائم کا اڈہ بنانے کی کوشش کرے اس کو سخت سزا ملنی چاہیے۔
ماضی قریب میں قبرستانوں میں ایسے واقعات ہوئے کہ ہر انسان ہل کر رہ گیا۔ پہلا واقعہ 2019 میں رحیم یار خان میں ہوا جہاں زمین کے تنازعے کی وجہ سے ایک خاتون کی لاش کو قبر سے نکال دیا گیا۔ پولیس کی مداخلت کے بعد دوبارہ خاتون کی تدفین ہوئی۔
اس کے بعد ایک اور ہولناک واقعہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں ہوا۔ 13 اگست 2021 کو ایک 14 سال کی لڑکی کی قبرستان میں تدفین ہوئی۔ اگلے روز اس کی لاش کھیتوں سے ملی جب لاش کا معائنہ ہوا تو ریپ کی تصدیق ہوئی۔
اس ہی نوعیت کا دوسرا واقعہ اب پنجاب کے شہر گجرات میں ہوا ہے جہاں چھ مئی کو ایک ذہنی معذور بچی کا انتقال ہوا جس کی تدفین کی گئی۔ اگلے روز جب اہل خانہ فاتحہ خوانی کے لیے گئے تو لاش قبر میں نہیں تھی اور ڈھونڈنے پر بنا کفن تھوڑی دور مل گئی۔ لاش کا پوسٹ مارٹم کر کے کیمیکل جائزے کے لیے نمونے لاہور بھجوا دیے گئے ہیں۔ اب یہ لاش کیوں باہر نکالی گی تھی یہ فرانزک سائنس ایجنسی ہی بہتر بتائے گی۔ کیا یہ اقدام ریپ تھا یا کسی جادو یا اعضا کی چوری کے لیے ایسا کیا گیا؟
ہمارے ہاں اکثر جب خواتین ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ شاید ان کا لباس مناسب نہیں ہوگا اس لیے ان کے ساتھ ایسا ہوا جبکہ لباس کا ہراسانی اور ریپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
بچی کی لاش تو مکمل کفن میں تھی۔ کیا اب بنت حوا کفن اور قبر میں بھی محفوظ نہیں؟ کس درندے نے بچی کو قبر سے نکال کر بے لباس کیا؟ ہماری خواتین تو اب قبرستان میں ابدی نیند سونے کے بعد بھی محفوظ نہیں۔
ساری زندگی عورت مرد کی ہوس بھری نظروں کا سامنا کرے اور مرنے کے بعد بھی اس کا جسم ہوس کے پجاریوں سے محفوظ نہیں۔ آخر کار ہماری قوم کو کیا ہوتا جا رہا ہے؟ ان مسائل کا حل کیا ہے؟
خواتین ایک جسم کا نام نہیں ہیں نہ ہی ہوس کی تسکین کا سامان ہیں۔ صنف نازک ایک انسان ہے اس کو بھی جینے کا حق حاصل ہے، اپنی مرضی کی تعلیم، اپنی پسند کی شادی، اچھی خوراک اور اپنی پسند سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ملک میں پہلے ہی خواتین کو حقوق نہیں مل رہے اوپر سے ان کے جسد خاکی کی بےحرمتی بھی کی جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشرہ کتنا تنزلی کا شکار ہے۔ لاش تو پورے کپڑوں میں تھی تو کسی نے اس کو قبر سے نکال کر اس کی بےحرمتی کیوں کی؟
مسئلہ عورت یا اس کے لباس میں نہیں ہے، مسئلہ ریپ کرنے والے اور بےحرمتی کرنے والے کے ساتھ ہے۔ انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
اسلامی سکالر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کہتی ہیں یہ ایک سخت مجرمانہ اور وحشی رویہ ہے کہ قبر اور میت کی بےحرمتی کی جائے۔ جب تک سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی یہ وحشت بڑھتی چلی جائے گی۔
لاش اور میت کی حرمت پر اسلام بھی بہت زور دیتا ہے۔ لاش کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کہتی ہیں کہ اگر کوئی لاش کے ساتھ زیادتی کرے یا بےحرمتی کرے یہ ایک قبیح فعل ہے۔ اس جرم کے مجرم کو سخت سزا دی جائے تاکہ باقی لوگوں پر اس کی دہشت ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ معاشرے میں جرائم اس لیے بڑھ رہے ہیں کہ لوگوں کے دل سے سزا کا خوف نکل گیا ہے۔
ماہر نفیسات رابعہ خان کہتی ہیں کہ یہ بیماری نیکروفیلیا ہے اور اس میں انسان کو لاشوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کا دل کرتا ہے۔ ’کچھ صرف سوچ کر تسکین حاصل کرتے ہیں اور کچھ قبروں یا مردوں تک پہنچ جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر رابعہ خان نے کہا کہ یہ مرض زیادہ تر مردوں میں پایا جاتا ہے اس حوالے سے پاکستان میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول: ’مردوں میں جب نفسانی خواہشات زیادہ ہوں ان کے ساتھ کچھ سانحہ ہوا ہو، ان کودماغی امراض ہوں یا وہ پرتشدد ہوں تو بھی وہ اس طرف راغب ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بالکل تازہ قبر پر حملہ آور ہوتے کیونکہ وہ انسان مرچکا ہوتا ہے اور وہ مزاحمت نہیں کر سکتا۔ اس لیے حملہ آور انسان کو کوئی مزاحمت اور انکار محسوس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر رابعہ خان کے مطابق پہلے پہل تو ان کو ڈر لگتا ہے لیکن بعد میں یہ سفاک ہوجاتے ہیں۔ ان کو روکنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ادویات یا تھراپی کا استعمال کرکے انہیں نارمل لائف کی طرف لانا ضروری ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ساجد رحیم کہتے ہیں یہ مرض جنسی امراض سے تعلق رکھتا ہے۔ جنسی امراض دو طرح کے ہوتے ہیں ایک فنکشنگ اور دوسرا پریفرنس کے حوالے سے ہوتا ہے۔ لوگ اس طرف راغب ہوتے ہیں جس کا جنسی عمل سے تعلق نہیں ہے کچھ لوگ صرف سوچتے ہیں اور کچھ لوگ کر لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیق کہتی ہے کہ زیادہ تر ایسے لوگ سائیکو پیتھ ہوتے ہیں۔ یہ جرم بھی ہے اور نفسیاتی ڈس آڈر بھی۔ ان پر سزا لاگو ہوتی ہے اور ساتھ علاج بھی کروایا جائے۔
وہ کہتے ہیں مجرم میں عزت نفس کم ہوتی ہے اس لیے مجرم لاش کا انتخاب کرتا ہے تاہم یہ ایک جرم ہے۔
بیماری سے ہوا ہے یا مجرمانہ سفاکی سے یہ عمل قابل جرم ہے۔ اس کے تدارک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قانون اور سزا سے اس کو روکا جاسکتا ہے اور ساتھ اس بیماری کا علاج بھی ضروری ہے۔