آئین کی تکریم ضروری ہے لیکن آئین میں ترمیم تو بہت ہی ضروری ہے۔
فیصلہ سازوں کو جب تک یہ نکتہ سمجھ نہیں آتا، تب تک آئین کی بالادستی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ آئین ایک خاص ماحول میں، ایک خاص نفسیات کے زیر اثر مرتب ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ صدمے کی ایک کیفیت تھی جس نے سب کو جکڑ رکھا تھا۔ چنانچہ مختلف معاملات پر گہرائی میں جا کر بحث کرنے کی بجائے سبھی کا رجحان ایک متفقہ آئین تیار کرنے پر تھا اور یہی چیز فتح مبین قرار پائی کہ چلیں ایک متفقہ آئین تو بن گیا۔
یہ اتفاق رائے سانحہ مشرقی پاکستان کے گھاؤ پر گویا ایک مرہم سا تھا۔ چنانچہ کسی نے یہ سوال نہ پوچھا کہ زمینی حقائق جب اتنے بدل چکے کہ ملک ہی ٹوٹ گیا تو متحدہ پاکستان کے انتخابات کی بنیاد پر حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ کیوں نہ نیا مینڈیٹ لیا جائے تاکہ لوگ اس سانحے کے بعد پھر سے فیصلہ کریں کہ اب انہوں نے کس جماعت کو ووٹ دینا ہے؟ اس خاص نفسیاتی پس منظر میں جب آئین تشکیل پایا تو بہت سے معاملات پر اس طرح بحث اور غور نہ ہو سکا جیسے ہونا چاہیے تھا۔
یہی غنیمت تھی کہ ایک آئین بن رہا ہے۔ بعد میں یہ آئین تواتر سے پامال ہوا تو سب نے یہی غنیمت سمجھا کہ کسی طرح اس کا احترام ہونے لگے اور یہ مزید پامال نہ ہو۔ یعنی آئین سازی کے مرحلے سے آئین کے احترام کے مرحلے تک، قومی نفسیات پر اضطراب اور اضطرار کا پہلو نمایاں رہا۔ اگر ہم اس اضطراب اور اس اضطراری حالت سے نکل سکیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اصل کوہ کنی آئین کی تکریم میں نہیں، تکریم کے ساتھ ساتھ اس میں ترمیم میں ہے۔
سوال یہ ہے کیا ہم یہ بھاری پتھر اٹھانے کو تیار ہیں؟ اس سفر کے ابتدائی نقوش کے طور پر چند چیزیں ایک طالب علم کے طور پر میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
ہمارا آئین اگرچہ جمہوری، پارلیمانی اور اسلامی ہے لیکن اس کا مزاج نہ پارلیمانی ہے نہ جمہوری ہے نہ ہی اسلامی۔
پارلیمانی جمہوریت کے اس آئین میں صدر اور گورنر کے منصب ہیں جن کا پارلیمانی نظام جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ نو آبادیاتی نظام ہے جو کاپی پیسٹ کی جدید شکل میں ہمارے ہاں بلاوجہ رائج ہے۔
نو آبادیاتی دور تھا تو بادشاہت تھی۔ یہ ختم ہوا تو ابتدائی مرحلے میں گورنر جنرل کا منصب بادشاہ کے نمائندے کے طور پر رکھا گیا۔
اپنا آئین بنانے کے بعد گورنر جنرل کا منصب ختم ہو گیا لیکن ہم نے اسی منصب کا نیا نام صدر رکھ دیا۔ اس کی کیا ضرورت تھی؟
کیا صدر کا یہ منصب بر طانوی پارلیمانی نظام میں برطانوی بادشاہ کی طرز کا ایک متبادل ہے؟
یعنی جیسے وہاں پارلیمان کے ساتھ کراؤن ہے ہم نے پارلیمان کے ساتھ صدر رکھ لیا؟
جو کام گورنر یا صدر کرتے ہیں وہ رسمی سے کام سپیکر یا چیئرمین سینیٹ بھی کر سکتا ہے۔
اس نوآبادیاتی علامت کے لیے اتنے اخراجات کیوں اٹھائے جاتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ کہ ہم نے صدر اور گورنر کو اختیار بھی اسی نوعیت کے دے رکھے ہیں جو ایک دور میں بادشاہ کو حاصل تھے۔
مثلا آئین کے آرٹیکل 109 میں لکھا ہے کہ گورنر جب جہاں اور جس مقام پر چاہے اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتا ہے اور اجلاس کو ختم بھی کر سکتا ہے۔
غور کیجیے جب جہاں اور جس مقام پر کا کیا مطلب ہے؟ یعنی گورنر چاہے تو کیا وہ پنجاب سمبلی کا اجلاس گوال منڈی میں بھی طلب کر سکتا ہے؟
جب اسمبلی کی عمارت موجود ہے تو جہاں اور جس مقام پر کا اختیار کس لیے؟ علامتی ہی سہی اس میں بڑی معنویت ہے۔
اجلاس بلانے کا مکمل اختیار بھی جواب طلب ہے۔ اس میں سپیکر اور خود پارلیمان کو یہ اختیار کیوں نہیں کہ وہ اپنا اجلاس بلا سکیں؟
صدر کو آئین میں ہی آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق آج تک 2500 آرڈی ننس جاری ہوچکے ہیں۔
تو کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ملک میں 2500 مرتبہ ایسی ایمرجنسی پیدا ہو گئی تھی کہ آرڈیننس جاری کرنا پڑے؟
آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو اختیار ہے عدم اعتماد کی قرارداد سے پہلے پہلے جب چاہے اسمبلیاں تحلیل کر دے اور ان کو ایسا کرتے وقت کوئی جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ پارلیمان عوام کی نمائندہ ہے تو اس کی تحلیل کا اختیار فرد واحد کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟
کیا یہ عوام کے حق انتخاب کی توہین نہیں؟ اسلامی دفعات موجود ہیں لیکن اقوال زریں کی صورت میں۔
نظام تعزیر میں سپریم کورٹ کا ایک شریعت ایپلٹ بنچ ہے جو سالوں تک مکمل ہی نہیں ہوتا، غیر فعال پڑا ہے اور اس کے سامنے گذشتہ صدی کے مقدمات زیر التوا ہیں۔
آئین میں لکھے اسلامی آرٹیکل اس نظام کی کسی چیز کو بھی بالفعل اسلامی نہیں کر سکے۔
آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں درج اصطلاحات کے معنی ہی کسی کو معلوم نہیں۔
بجٹ پارلیمان کا حق ہے اور اسی کا استحقاق، لیکن ہم نے آئین میں ہی سپلیمنٹری گرانٹ کی گنجائش رکھ کر پارلیمان کے اس حق کو عملا ساقط کر کے یہ حق صرف حکومت کو دے دیا۔
آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا ذکر تو موجود ہے لیکن ان اقوال زریں کو نو آبادیاتی دور کے قوانین سے مشروط کر کے ان کی عملا نفی کر دی گئی۔
چنانچہ آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی رائے کا حق تو موجود ہے لیکن قانون سے مشروط اور قانون یہ ہے کہ حکومت اور وفاقی وزیر کی توہین پر بھی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور اس کی سزا عمر قید تک ہو سکتی ہے۔
آئین میں یہ تو لکھ دیا گیا ہے کہ آپ کے مال کا تحفظ آپ کا بنیادی حق ہے لیکن یہ مروجہ قانون سے مشروط حق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نو آبادیاتی دور میں توصرف مفاد عامہ یعنی سرک ریلوے ہسپتال وغیرہ کے لیے زمین لی جا سکتی تھی، ہم نے آزادی کے بعد قانون میں یہ اضافہ کر لیا کہ اشرافیہ کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی بنانا بھی مفاد عامہ ہے۔
گویا یہ حق بھی تب تک ہے جب تک آپ کی زمین پر کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کی نظر نہیں پڑ جاتی۔
آئین میں بنیادی حقوق دیے گئے ہیں لیکن آئین میں ہی لکھ دیا گیا کہ یہ حقوق صرف ایک حکم نامے کے ذریعے ساقط بھی کیے جا سکتے ہیں۔
کچھ شرائط موجود ہیں لیکن ان کی کون پرواہ کرتا ہے۔ سوراخ موجود ہو تو سرنگ اہل ہنر خود بنا لیتے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ جب کوئی پارلیمانی بحران پیدا ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ آئین تو اس نکتے پر مبہم ہے اور اس کی شرح کی ضرورت ہے۔
شرح کے نام پر یہاں جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ افسوس ناک باب ہے۔
ضرورت اب اس بات کی ہے کہ آئین پر از سر نو غور کیا جائے اوراس کے ابہام دور کیے جائیں۔
مقامات آہ و فغاں بہت سارے ہیں۔ میں نے صرف چند مقامات کی نشاندہی کر دی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔