نکاح حلالہ ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت عورت کو اپنے پہلے شوہر کے پاس واپس جانے کے لیے شادی کرنا اور کسی دوسرے مرد کے ساتھ سونا ضروری ہے۔
اسلام میں حلالہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی جڑیں لفظ ’حلال‘ میں پائی جاتی ہیں جس کا مطلب ایسی چیز ہے جو جائز ہے اور اس لیے ’حلال‘ ہے۔ نکاح کے تناظر میں اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت نکاح حلالہ مکمل ہونے کے بعد اپنے سابق شوہر کے لیے دوبارہ حلال ہو سکتی ہے۔
انڈین سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ وہ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادیوں اور نکاح حلالہ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے لیے پانچ ججوں پر مشتمل ایک آئینی بنچ بنائے گا۔
اس سے قبل انڈین حکومت پہلے ہی اکٹھی تین طلاق دینے کے خلاف قانون سازی کر چکی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا پر مشتمل بنچ نے وکیل اشونی اپادھیائے کی اس دلیل کا نوٹس لیا کہ پچھلے آئینی بنچ کے دو جج جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس ہیمنت گپتا کے ریٹائر ہونے کی وجہ سے پانچ ججوں کا ایک نئی بنچ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’بہت اہم معاملے ہیں جو پانچ ججوں کی بنچ کے سامنے زیر التوا ہیں۔ ہم ایک (بنچ) تشکیل دیں گے اور اس معاملے کو ذہن میں رکھیں گے۔‘
گذشتہ سال 30 اگست کو جسٹس اندرا بنرجی، جسٹس ہیمنت گپتا، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس سدھانشو دھولیا پر مشتمل ایک پانچ رکنی بنچ نے قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی)، قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو) اور قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) کو ان درخواستوں میں فریق بنایا اور ان سے جواب مانگا تھا۔
بعد ازاں جسٹس بنرجی اور جسٹس گپتا گذشتہ برس بالترتیب 23 ستمبر اور 16 اکتوبر کو ریٹائر ہوئے جس کے بعد ایک سے زیادہ شادیوں اور نکاح حلالہ کے خلاف آٹھ درخواستوں کی سماعت کے لیے بنچ کی دوبارہ تشکیل کی ضرورت پیدا ہو گئی۔
درخواست گزار وکیل اپادھیائے نے اپنی درخواست میں ایک سے زیادہ شادیوں اور نکاح حلالہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
نکاح حلالہ کی روایت برطانیہ میں مقیم مسلمانوں اور دنیا کے دیگر مملک میں بھی کسی حد تک پائی جاتی ہے۔
جہاں ایک مسلمان مرد کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے وہیں نکاح حلالہ اس عمل سے متعلق ہے جس میں ایک مسلم عورت کو، جو طلاق کے بعد اپنے شوہر سے دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے، پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرنی ہوتی ہے اور طلاق کے بعد اس سے طلاق لینی ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے جولائی 2018 میں اس درخواست پر غور کیا تھا اور اس معاملے کو آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا جو پہلے ہی اسی طرح کی درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
اسلام میں ایک تشریح کے مطابق ایک مسلمان مرد کو ایک ہی عورت کو دو بار طلاق دینے اور دوسری شادی کرنے کی آزادی ہے۔ تاہم، اگر وہ تیسری بار شادی ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اسی عورت سے صرف اسی صورت میں دوبارہ شادی کر سکتا ہے جب وہ پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کرے، شادی کی شرائط مکمل کرے اور صرف اگر مرد مر جائے یا رضاکارانہ طور پر طلاق مانگے تو عورت اپنے پہلے شوہر کے پاس واپس جا کر اس سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔
ہندوستان کے مشہور مذہبی رہنما مولانا اشرف علی تھانوی (1863-1943) نے ’بہشتی زیور‘ (خواتین کے لیے اسلامی عقائد اور طریقوں کی ایک جامع کتاب) میں اس تصور کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ’ایک شخص قابل قبول (راجی) طلاق کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ صلح کر لیتا ہے اور دوبارہ ساتھ رہتا ہے۔ دو چار سال بعد اشتعال انگیزی کے تحت وہ ایک بار پھر طلاق ثلاثہ کا اعلان کرتا ہے۔ جذبات ٹھنڈنے ہونے پر وہ دوبارہ ساتھ رہنا شروع کرتا ہے۔ اب دو طلاقیں ختم ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد جب بھی وہ طلاق کا اعلان کرے گا تو اسے تیسری طلاق کے طور پر شمار کیا جائے گا، جس سے شادی فوری طور پر ختم ہو جائے گی اور اگر فریقین کی طرف سے دوبارہ شادی کی خواہش ہو تو حلالہ کی ضرورت ہو گی۔
طلاق کے اعلان کے بعد عورت شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔
طلاق کے تناظر میں ایک پابندی مقرر کی گئی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مرد اسے اپنی بیوی کو اذیت دینے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال نہ کرے (جتنی بار چاہے شادی اور طلاق دے کر)۔ یہ ناقابل تنسیخ کا قاعدہ تھا۔ یہ قاعدہ سخت نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا کہ طلاق محض مذاق تک محدود نہ رہے۔
انڈین لا انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر فرقان احمد نے طلاق کے اسلامی قانون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام سے پہلے کی اس وحشیانہ روایت کو ختم کرنے کی کوشش کی جو بیوی کو طلاق دینا اور اس کے ساتھ برا سلوک کرنے کے لیے اسے دوبارہ نکاح میں لے لینا تھا۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے اعلان کے ناقابل تنسیخ ہونے سے واضح طور پر پیغام دیا تھا کہ اس طرح کے عمل کو غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا اگر شوہر واقعی بیوی کو واپس لے جانا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو دو مرتبہ مصالحت کے بعد تیسرا اعلان حتمی رکاوٹ تصور ہو گا۔
فقیہ مولانا اشرف علی تھانوی نے بہشتی زیور میں مزید وضاحت کی کہ اگر میاں بیوی تیسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو یہ صرف ایک شرط پر کیا جا سکتا ہے: عورت کو کسی دوسرے مرد سے شادی کرنی ہو گی اور اس کے ساتھ سونا ہو گا۔
تھانوی نے لکھا کہ اب اگر دوسرا شوہر جنسی تعلقات کے بعد فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے دے تو عدت کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ لیکن اگر دوسرا شوہر جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے دے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور وہ ایسی حالت میں پہلے شوہر سے شادی نہیں کر سکتی۔
اس قانون کی پیروی انڈیا میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا حصہ کرتا ہے جسے نکاح حلالہ کہا جاتا ہے۔
انڈیا میں طلاق اور شادی سے متعلق پرسنل لا مذہب پر مبنی ہیں۔ طلاق ثلاثہ (جہاں ایک مرد اپنی بیوی کو ’طلاق، طلاق، طلاق‘ کہہ کر طلاق دے سکتا ہے) ایک سنگین اور متنازع مسئلہ ہے، جہاں مرکزی حکومت کو لگتا ہے کہ مسلم خواتین کو مزاحمت کرنا چاہیے۔ 2016 میں اتر پردیش میں ایک ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اس طرح کے قوانین مسلم خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ سے مسلم خواتین کی زندگی برباد نہیں ہونے دی جا سکتی۔
اس کے درمیان حکومت سپریم کورٹ پر زور دے رہی ہے کہ وہ انڈیا میں نکاح حلالہ اور تعدد ازدواج کو ختم کرے۔ لیکن کئی اسلامی حکام اور مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی بی جے پی کی مہم ایک سیاسی چال ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے اپنے مذہبی قوانین کا دفاع کرتے ہوئے پہلے ہی کہا تھا کہ اس طرح کے قرآنی حکم (تین طلاق) سے کوئی بھی انحراف خود اللہ تعالیٰ کے مینڈیٹ کے خلاف ہو گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا عمل اسلام کے لازمی عمل کے خلاف ہو گا اور یہ اللہ اور اس کے رسول کی درست ہدایات کو نظر انداز کرنا ہو گا جو گناہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں شوہر تین طلاق کے ذریعے اپنی بیوی کو الگ کرنے پر افسوس کرتا ہے اور مصالحت کی امید میں اپنی طلاق یافتہ بیوی کو شادی کے لیے کسی دوسرے مرد کے حوالے کرتا ہے اس شرط پر کہ شوہر اگلے دن اس عورت کو طلاق دے گا۔ البتہ متعہ (مشروط شادی) کو سنی فقہ کے مطابق گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے شوہر کو گنہگار سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن خطاب (579-644) نے ایسے شوہروں کو گنہگار قرار دیا اور کہا کہ ’میں ایسے لوگوں کو پتھر مار کر ہلاک کر دوں گا۔‘
جدید انڈیا میں نکاح حلالہ کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اکتوبر 2016 میں ایک بھارتی مسلمان خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے شوہر کے دوست نے اس کے ساتھ ریپ کیا۔ شوہر نے اپنی بیوی کو جوئے کے کھیل میں اپنے دوست کے ہاتھوں ہار گیا تھا جس کی وجہ سے اسے طلاق دینی پڑی۔ اسے واپس لانے کے لیے شوہر نے اپنے دوست کو عورت کے ساتھ سونے کو کہا۔ ملزم (شوہر کے دوست) نے اسے ’نکاح حلالہ‘ کا حصہ قرار دیا تاکہ اس کا طلاق یافتہ شوہر اسے واپس لے سکے۔
اس دوران متعدد ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پیجز سامنے آئے ہیں جو ان خواتین کو حلالہ شادی کی خدمات پیش کر رہے ہیں جنہیں ان کے پہلے شوہروں نے طلاق دے دی ہے۔ مثال کے طور پر ’حلال نکاح‘ کے نام سے ایک ٹوئٹر پیج پر لکھا ہے کہ 'السلام علیکم الحمدللہ، یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے شادی کی خدمت ہے۔ اب اس کا فائدہ اٹھائیں۔‘
اس طرح کی ویب سائٹس ایسے مردوں کی خدمات پیش کرتی ہیں جو فیس کے بدلے میں کلائنٹ کے ساتھ شادی کرنے اور سونے کے لیے تیار ہیں۔ ان خدمات کے لیے رجوع کرنے والی بہت سی خواتین کو بعد میں بلیک میل کیا جاتا ہے یا ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
2016 میں بی بی سی کی ایک رپورٹر نے خود کو ایک طلاق یافتہ مسلمان خاتون کے طور پر پیش کیا تھا جو فیس بک کے ذریعے حلالہ شادی کی سروس حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ صحافی سے ایک جعلی، عارضی شادی اور اس کے ساتھ سونے کے لیے فیس بک پیج پر ایک شخص نے تقریبا آٹھ لاکھ پاکستانی روپے یا 25 سو پاؤنڈ کی رقم ادا کرنے کو کہا گیا تھا۔
طلاق ثلاثہ اور نکاح حلالہ جیسے قوانین مسلم خواتین کے لیے نقصان دہ پائے گئے ہیں۔