انیسویں صدی کے وسط میں تعمیر کی گئی پشاور سینٹرل جیل خیبر پختونخوا کی ایک حساس جیل ہے، جہاں قیدیوں کی تعداد اس وقت تین ہزار چار سو سے زیادہ ہے۔ ان میں 32 خواتین قیدی بھی شامل ہیں۔
یہ جیل خیبرپختونخوا کے صدر مقام پشاور میں واقع ہونے کی وجہ سے اکثر توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پچھلے کچھ برسوں میں قیدیوں کے حقوق، ان کی ذہنی و جسمانی صحت، خوراک، رہن سہن غرض مختلف زاویوں سے کافی کام ہوا۔ ان اقدامات کو حوصلہ افزا تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن کافی نہیں۔
ایک عام شخص جب جیل کا نام سنتا ہے تو اس کے ذہن میں کئی تصورات جنم لیتے ہیں کیونکہ اسے یا تو سنی سنائی باتوں کا علم ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اس نے فلموں یا ڈراموں میں دیکھا ہوتا ہے۔
پشاور سینٹرل جیل کے ایک حالیہ دورے میں خواتین قیدیوں کے بیرک جانے کا اتفاق ہوا۔
یہ بیرک جس کے حوالے سے گذشتہ کچھ عرصے سے تنقید ہوتی رہی دراصل ایک کشادہ اور اونچی دیواروں پر مشتمل ایک ہال ہے، جس کے باہر بس اتنی کھلی جگہ ہے کہ جس میں سردیوں میں دھوپ سینکی جاسکے، ٹہلا جاسکے یا پھر کھلے آسمان تلے سانس لیا جاسکے۔ ہاں لیکن یہ اتنی بڑی بھی نہیں کہ اس کو کسی کھیل کود کے میدان سے تشبیہ دی جاسکے۔
اسی ہال کے باہر ایک چھوٹا سا کمرہ ایک انچارج خاتون کا بھی ہے، جنہیں خواتین قیدیوں سمیت سب ’باجی‘ بلاتے ہیں۔
خواتین قیدیوں کی یہ جگہ ایک پرانی عمارت ہے، جس میں بڑے بڑے روشن دان ہیں، جن سے تازہ ہوا کا گزر ہوتا ہے۔
ہال کے اندر ایک جانب آمنے سامنے بستر پڑے ہیں جبکہ دوسری جانب ایک کونے میں غسل خانے اور بیت الخلا بنے ہوئے ہیں۔
جیل سپرنٹنڈنٹ مقصود خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جیل کے اندر یہ غسل خانوں اور بیت الخلا کا ایک جدید تصور ہے جس کا مقصد خواتین قیدیوں کی سہولت اور ان کے پردے کا نظام برقرار رکھنا ہے۔
اس ہال کے اندر پڑی چارپائیوں پر آرام دہ فوم اور اس پر سلیقے سے چادریں بچھائی گئی تھیں۔ ہر خاتون قیدی کے بستر کے ساتھ پڑی ایک میز پر ان کی ضرورت کا سامان پڑا تھا۔ کسی نے قرآن پاک تو کسی نے کچھ اور چیزیں رکھی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے یوں لگا کہ یہ جیل نہیں کوئی ہاسٹل ہے۔
خواتین اس ہال کے اندر گھوم پھر رہی تھیں، کوئی گفتگو میں مصروف تھا تو کوئی قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھا۔
ان خواتین میں نوجوان، ادھیڑ عمر اور اس سے زائد عمر کی خواتین تھیں۔ کسی کو بھی دیکھ کر محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ بظاہر یہ کسی جرم میں ملوث ہوسکتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان خواتین میں ایک ایسی خاتون بھی تھیں، جنہیں عدالت نے 100 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
جب ان سے پوچھا کہ وہ کس جرم کی پاداش میں جیل آئی ہیں تو انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’میرے تین بھائیوں کو ناحق قتل کیا گیا تھا اور میں نے ان کا بدلہ لیا۔ دعا کریں کہ رہائی ملے۔‘
آگے بڑھے تو ایک نوجوان خاتون سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان پر شوہر کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ ان ہی میں سے ایک اور نوجوان خاتون نے کہا کہ ان پر بھی قتل کا الزام ہے اور وہ تین سال سے قید کاٹ رہی ہیں۔
خاتون نے مزید بتایا: ’مجھے بچوں کی یاد ستاتی ہے۔ بچے میرے والدین کے پاس ہیں۔ جب (جیل میں) آئی تھی تو پتلی سی تھی، اب وزن بڑھ گیا ہے۔ یہاں کوئی جم نہیں ہے، بس یہیں پڑی رہتی ہوں۔ امید ہے یہاں سے نکل جاؤں گی، بس دعا کریں میرے لیے۔‘
جیل کے اندر اگرچہ مردوں کے لیے ایک جم موجود ہے لیکن خواتین کے لیے ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جیل حکام نے بتایا کہ گرمیوں میں ہر بیرک کی کھڑکیوں کے پاس ’ایئر کولرز‘ کا انتظام کیا جاتا ہے۔
خواتین قیدیوں کے بیرک میں کھانا اور لائبریری سے کتابیں پڑھنے کے لیے اندر پہنچتی رہتی ہیں۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق پشاور سینٹرل جیل کی کل 32 خواتین قیدیوں میں 14 کو منشیات کے مقدمات میں جیل میں ڈالا گیا ہے۔ اسی طرح ہزار سے زائد مرد قیدی بھی منشیات کی مقدمات میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔