یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں سے سیاسی معاملات میں متنازع، ڈرامائی، افسانوی، ضرورت، وابستگی اور ترجیحات پہ مبنی فیصلے آتے رہے۔
عدلیہ میں کئی ایسے ججز آئے جنہوں نے آئین کے برخلاف فیصلے دیے، کچھ ججز کے فیصلوں کو وسیع تر ذاتی مفاد لے ڈوبا، کچھ کو نظریہ ضرورت کھا گیا۔
جج ہم عوام نہیں نظام چنتا ہے، جج کا احتساب بھی ہم عوام نہیں نظام کرتا ہے، نہ ہم انہیں لاتے ہیں نہ ہی گھر بھیج سکتے ہیں۔ ہم عدلیہ سے صرف ’رحم میرے آقا رحم‘ والی اپیل کر سکتے ہیں یا بددعا دے سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پہ طنز، طعنے دے سکتے ہیں یا نوجوان اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تصاویر والے میمز بنا سکتے ہیں، اور بس۔
قصور ہمارا بس اتنا ہے کہ جج کس قانون کی رو سے فیصلے دے گا وہ قانون ہم عوام کے منتخب نمائندے بناتے ہیں اور بظاہر ان منتخب نمائندوں کو اسمبلی تک پہنچانے کا گناہ ہم عوام کرتے ہیں یا خلائی مخلوق۔ چوں کہ خلائی مخلوق آئین کے دائرے میں نہیں آتی اس لیے چارج شیٹ بہرحال عوام کو ہی بھگتنا ہوتی ہے۔
عوام کے منتخب نمائندوں کی تو کیا ہی بات ہے، ان نمائندوں کا اجتماع یعنی پاکستان کی پارلیمنٹ ہم سب کی قسمت کے فیصلے کرتی ہے۔ یہ آرمی چیف سے لے کر غریب ریڑھی بان تک سب کو توسیع دے سکتی ہے۔ یہ چاہے تو راتوں رات اشرافیہ کے محلات کی حفاظت کا قانون پاس کر سکتی ہے، چاہے تو برسوں گزرنے پہ بھی کم عمری کی شادی جیسے قانون کو پاس نہ کرے۔ انڈا دے بچہ دے اس کی مرضی۔
پارلیمنٹ کی چھت تلے نظریاتی بیٹھتے ہیں، سیلف فنانس والے بھی، یہاں ٹوٹل پورا کرنے والے بھی مل جائیں گے اور خصوصی نشست والے بھی۔ یہاں کئی ایسے ہیں جن کا مائیک اس کی سیٹ تکتے تکتے سوکھ گیا۔ یہ عوام کی خاطر کبھی نہ بولے۔
کئی ارکان اسمبلی بلڈنگ کے سامنے والے پارلیمنٹ لاجز کی کھڑکی سے شہر اقتدار کا موسم جھانکتے ہیں لیکن اسمبلی ہال میں نہیں آتے۔
درجنوں اراکین ایسے ہیں جن کا سیاسی حلقہ ان کی آمد کو ترس گیا ہے یہ اسلام آباد سے ٹلتے ہی نہیں۔ یہ اپنی پارٹی رہنماؤں کی کرسیوں کے پیچھے اس لیے بیٹھتے ہیں کہ ان کے دھاڑنے پہ سیٹ بجا سکیں، ضرورت پڑے تو ’شیم شیم‘ کے نعرے بلند کریں اور لیڈر صاحب کوئی لطیفہ چھوڑیں تو دانت نکال کر کھی کھی کرلیں۔
کتنے ہی عوامی مسائل قانون سازی اور مقننہ کے فیصلوں کے منتظر ہیں مگر پہلے یہ شیم شیم تو کر لیں۔
ابھی پچھلے دنوں ہی ایک تحقیق کے دوران علم ہوا کہ پاکستان کی اسمبلی کو 75 سال لگے ہیں دوران حراست تشدد کو غیر قانونی اور قابل تعزیز جرم کہنے کے لیے۔ اب بھی اس قانون کے قابل ِ عمل بننے میں بڑا وقت لگے گا۔
اس ایوان سے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف قراردادِ مذمت تو اراکین ایسے پاس کرتے ہیں جیسے اسرائیلی فوجی اسی انتظار میں تھے کہ کب یہ مذمت کریں اور ہم اسلحہ چھوڑ کر پھول تھام لیں۔ مقبوضہ کشمیر والوں کو بھی ہم آئے روز اسمبلی کی قراردادوں کے تحفے بھیجتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابھی تازہ واردات پنجاب الیکشن پہ سپریم کورٹ فیصلہ آنے کے بعد ہوئی ہے۔ جب سے سائیں بزدار سے وزارت اعلیٰ کی کرسی چھنی ہے یہ کرسی کسی کو راس نہیں آ رہی۔ یہاں تک کے نگراں حکومت کو بھی نہیں۔
تفصیل میں کیا جانا بس اتنا سمجھ لیجیے جنوری میں پی ٹی آئی نے مستعفی ہو کر جو پنجاب اسمبلی توڑی جسے کتابی باتوں کے حساب سے تین ماہ کے اندر الیکشن کے ذریعے دوبارہ منتخب اراکین سے بحال ہو جانا چاہیے تھا۔ تاہم نگراں اور وفاقی حکومت نئے الیکشن کرانے کے لیے فی الحال راضی نہیں۔
تحریک انصاف جسے ٹھکرا کر اسمبلی سے نکلی وہی تخت لاہور کسی قیمت نہیں کھونا چاہتی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اتحاد پی ڈی ایم آپ ہی آپ ہراسانی کا شکار ہے اور کسی انجانے ڈر کے باعث الیکشن میں جانا نہیں چاہتی۔
عدالت نے بینچ بننے اور ٹوٹنے کی اپنی سالہاسال کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے فیصلہ دیا کہ الیکشن مئی میں کرائے جائیں اور اب ہمارے اپنے منتخب لوگوں سے سجی قومی اسمبلی نے قرارداد منظور کی ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم نہ مانا جائے۔
نظام آپ کا، آئین آپ کا، جج آپ کے، عدالتیں آپ کی، پولیس اور فوج بھی آپ کی۔ سٹیس کو کے سارے معیار آپ کے طے شدہ، قانون بنانے اور قانون توڑنے کا اختیار آپ کے پاس، فیکٹریاں اور بچے آپ کے سیٹل، ماہانہ خرچے کی آپ کو فکر نہیں، اگلے مہینے گھر کا کرایہ آپ کو نہیں دینا، پٹرول کے نرخ سے فرق آپ کو نہیں پڑتا، گلی کے نکڑ پہ آپ کو نہیں لوٹا جاتا۔ پھر کاہے کا ڈر؟
ہمیں تو ملک بحران کے دلدل میں دھنستا نظر آتا ہے، لیکن پھر بھی اگر آپ کو خطرہ بحران نہیں عمران سے ہے تو ایک کام کیجیے: یہ الیکشن شیم شیم چھوڑیں عمران خان تو آپ کے بس کی بات نہیں، اس لیے الیکشن میں جائیں، اور باقی کا کام ہم عوام پہ چھوڑ دیں، ہم چاہیں تو منتخب کریں چاہیں تو نکال باہر۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔