وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ہمراہ اتوار اور پیر کی درمیانی رات میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے کی جگہ کا تعین صبح کیا جائے گا نیز دھرنا پرامن ہو گا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’آج کے مذاکرات میں کامیابی ہوئی‘ نیز ’کل کا دھرنا پرامن ہو گا اور ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹے گا۔‘
وفاقی حکومت نے قبل ازیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی کہ وہ سپریم کورٹ کے خلاف پیر کو کیے جانے والا احتجاج دارالحکومت کے ریڈ زون یا شاہراہ دستور سے باہر کریں۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اتوار کی شام وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ایجنسیز کی رپورٹس کے مطابق پی ڈی ایم کے احتجاج میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد آنے کا امکان ہے۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’لوگوں میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے خلاف غم و غصہ بہت زیادہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان رپورٹس کی روشنی میں وہ اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر مولانا فضل الرحمن سے ملے اور ان سے احتجاج کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں سے مشورے کے بعد اتوار کی رات دس بجے تک بتائیں گے۔
جمعے کو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 22 مقدمات میں ضمانتیں ملنے کے بعد پیر (15 مئی) کو سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر احتجاج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے اور معاملے کو ہائی کورٹ واپس بھیجنے کے فیصلے کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کال پر جعمیت علمائے اسلام (ف) کے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔
جے یو آئی ف کے ترجمان سمیع سواتی نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار صالحہ فیروز خان کو بتایا کہ کراچی سے ایک قافلہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگیا ہے، جس کی قیادت جے یو آئی سندھ کے رہنما علامہ راشد محمود سومرو کر رہے ہیں، جو مختلف شہروں سے ہوتا ہوا پیر (15 مئی) کی صبح اسلام آباد میں داخل ہوگا۔
اسی طرح بلوچستان اور مینگورہ سوات سے بھی قافلے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز بھی اسلام آباد میں موجود ہیں، جو پارٹی قائد نواز شریف اور پارٹی صدر وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پیر کو پی ڈی ایم کے احتجاجی دھرنے میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کریں گی۔
پی ڈی ایم کے صدر اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے ایک حالیہ ویڈیو پیغام میں اپیل کی تھی کہ ’پیر کو سپریم کورٹ کے باہر پر امن احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے پہنچیں۔‘
مولانا نے اپنے پیغام میں کہا: ’صبح نو بجے تک قافلوں کو شاہراہ دستور پر پہنچ جانا چاہیے تاکہ ایک قومی یکجہتی قائم کی جائے اور جس طرح ہماری سپریم کورٹ نے یا ان کے تین رکنی بینچ نے اور پھر ان کے زیر اثر ہائی کورٹ کے ججوں نے جس طرح ایک مجرم کو تحفظ دیا ہے، جس طرح اس کے جرم کو تحفظ دیا ہے، اس اعتبار سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ملک کے اداروں کا تحفظ کرنا ہے۔ ان کے بگاڑ کو ہم نے سیدھا کرنا ہے۔‘
پوری قوم پیر کے روز سپریم کورٹ کے باہر پرامن احتجاج میں شرکت کے لئے پہنچیں، صبح نو بجے تمام قافلے پہنچ جائیں تاکہ قومی یکجہتی قائم کی جائے،تین رکنی بینچ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے ایک مجرم کو تحفظ دیا ہے۔ہم نے اپنے اداروں کا تحفظ کرنا ہے اور ججز کے بگاڑ کو سیدھا کرنا ہے۔
ججز… pic.twitter.com/pzrLYyPt9K
— Maulana Fazl-ur-Rehman (@MoulanaOfficial) May 13, 2023
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’ججز پاکستان کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔ ججز آج آئین، قانون اور عدالتی روایات کو پامال کر رہے ہیں۔ یکطرفہ طور پر ایک مجرم کو تحفظ دیا جا رہا ہے اور اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا جارہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایک مجرم کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ وہ آئندہ بھی جرائم کرے اور معیشت کو تباہ کرے۔ایک مجرم کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تاکہ وہ آئندہ بھی ملک کو اتنا کمزور کرے کہ ملک پارہ پارہ ہو جائے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم پہلے بھی میدان میں رہے ہیں، آج ایک بار میدان میں آنے کی ضرورت پڑی ہے۔ ہم عوام اور کارکنوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ پیر کی صبح شاہراہ دستور پہنچیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے ہدایت کی کہ ’انصار الاسلام کے سالار اور رضاکار نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لیے پہنچیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے وکلا برادری سے بھی احتجاج میں بھرپور شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کی بالادستی کی جنگ لڑنی ہے۔ وکلا نے ہمیشہ اس مقصد کے لیے قربانیاں دی ہیں۔آج ایک بار پھر ضرورت پڑی ہے کہ وکلا بھی میدان میں آئیں۔‘
انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اس احتجاج کو قومی احتجاج بنائیں۔ ’اداروں کی اس طرح کی بے راہ روی، جانبداری اور اپنے اختیارات سے تجاوز پر قوم احتجاج کرتی ہے۔‘
بقول مولانا: ’شاہراہ دستور پر اکٹھے ہوکر مضبوط پیغام دیں گے کہ عدالت اپنے اس رویے سے باز آجائے۔‘
اسلام آباد میں دفعہ 144 اور دھرنے کی اجازت کے لیے درخواست
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے احتجاج کی یہ کال ایک ایسے وقت میں دی ہے، جب وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
اسلام آباد پولیس نے گذشتہ روز اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا تھا کہ اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان سے رابطہ ہوا ہے۔
ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس ۔
اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان سے رابطہ کاری۔
قبل ازیں اسلام آباد پولیس کے افسران امن عامہ کے حوالے سے ایک اجلاس میں مصروف تھے۔
اسلام آباد پولیس قانون اور ضرورت کے مطابق تمام کارروائی کرے گی ۔
افواہوں اور پراپیگنڈہ…
— Islamabad Police (@ICT_Police) May 13, 2023
مزید تفصیل بتائے بغیر ٹویٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اسلام آباد پولیس قانون اور ضرورت کے مطابق تمام کارروائی کرے گی۔ افواہوں اور پروپیگنڈہ سے ہوشیار رہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت کی جانب سے پیر (15 مئی) کو سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کودرخواست جمع کروا دی گئی ہے۔
صدر مسلم لیگ ن اسلام آباد ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے مطابق: ’پورے اسلام آباد سے مسلم لیگ ن کے کارکن دھرنے میں بھرپور شرکت کریں گے۔‘
تاہم ضلعی انتطامیہ کی جانب سے ابھی تک دھرنے کی اجازت کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
عمران خان کو کب اور کیوں گرفتار کیا گیا؟
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نو مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے القادر ٹرسٹ کیس کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا، جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق قرار دیا تھا۔
اس گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ پی ٹی آئی نے اپنے چیئرمین کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے 11 مئی کو اس کیس کی سماعت کے بعد عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ جانے کا حکم دیا، جہاں 12 مئی کو سماعت کے بعد سابق وزیراعظم کو ایک ہی دن میں 20 سے زائد مقدمات میں ضمانت مل گئی۔
یہ وہ رویہ تھا جس پر حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی گئی جبکہ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے اور ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔