وفاقی وزارت قانون و انصاف کی جانب سے ملک بھر میں خواتین، بچوں اور خواجہ سراؤں کے ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے جولائی 2022 میں بنائے گئے قانون 'اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021' کے تحت پاکستان کا پہلا 'اینٹی ریپ کرائسز سیل' کراچی میں قائم کر دیا گیا۔
جمعے کو رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی سے متصل پولیس سرجن کراچی کے آفیس میں پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمیہ سید، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، پارلیامانی سیکریٹری صحت سندھ قاسم سومرو، امریکی قونصل خانے کراچی کی قونصل جنرل نکول ٹیریو نے پاکستان کے پہلے ’اینٹی ریپ کرائسز سیل‘ کا افتتاح کیا۔
یہ سیل سندھ حکومت کے محکمہ صحت نے یو این ویمن اور امریکی بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورس منٹ افیئرز کے اشتراک سے قائم کیا۔
پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمیہ سید کے مطابق یہ پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ’پاکستان کا پہلا سیل ہے، جہاں ریپ کا شکار ہونے والے مرد، خواتین، بچوں اور خواجہ سراؤں کی مدد کی جائے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سمیہ سید نے کہا: ’سیل کا قیام اینٹی ریپ انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل ایکٹ 2021 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت سندھ اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل صوبے بھر میں 27 اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کرنے کی منظوری دے تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اینٹی ریپ کرائسز سیل میں ریپ کے متاثرہ خواتین، بچوں، خواجہ سراؤں کو میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ، کیس کی فارنزک، ماہر نفسیات اور قانونی مدد ایک ہی چھت کے نیچے فراہم کی جائیں گی۔‘
سندھ اسمبلی کے نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی ڈویژن کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، شہید بے نظیر آباد ڈویژنز کے اضلاع میں بھی اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کیے جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا: ’کراچی میں اوسطً ہر روز تین سے چار ریپ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ ‘
ڈاکٹر سمیہ سید کے مطابق: ’میرے کنٹرول میں تین مراکز ہیں، عباسی شہید ہسپتال، رتھ فاؤ سول ہسپتال اورجناح ہسپتال۔ جن مراکز میں روزانہ ریپ سے متاثرہ تین سے چار خواتین اور بچے آتے ہیں۔ جبکہ ریپ کرنے کے بعد قتل ہونے والوں کی لاشیں بھی لائی جاتیں ہیں۔
’ریپ ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، مگر یہ اعداد و شمار صرف وہ ہیں جو ان تین بڑے ہسپتالوں میں آتے ہیں۔‘