خدمت خلق سمجھ کر انتخاب لڑوں گی: بونیر سے ہندو خاتون امیدوار

ڈاکٹر سویرا پرکاش ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو بونیر سے جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

’انتخابات میں کسی سے مقابلہ نہیں کرتی بلکہ اس کو کوشش سمجھتی ہوں اور خدمت خلق سمجھ کر میدان میں اتری ہوں۔ میرا مقصد عام لوگوں کی خدمت کرنا ہے کیونکہ میرا تعلق متوسط گھرانے سے ہے۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سویرا پرکاش کا، جو آٹھ فروری کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 25 پر پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار ہیں۔ 

ڈاکٹر سویرا ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں، جو بونیر سے جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور کامیابی کی امید رکھتی ہیں۔  

ڈاکٹر سویرا کا خاندان دہائیوں سے بونیر کے علاقے ڈگر میں مقیم ہے اور ان کے والد ڈاکٹر اوم پرکاش اور والدہ ڈاکٹر الیا پرکاش بونیر ہی میں ایک میڈیکل سنٹر چلاتے ہیں۔ 

جب ہم ڈاکٹر سویرا سے ملاقات کے لیے پہنچے تو ہماری نظر میڈیکل سینٹر کے بورڈ پر پڑی، جس پر درج تھا: ’یتیموں، بیواؤں، مدارس کے طلبہ اور غریبوں کا معائنہ مفت ہو گا۔‘

ایبٹ آباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر سویرا کے مطابق وہ اپنے والدین کی سماجی خدمات سے متاثر ہو کر سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میڈیکل کی تعلیم کے دوران دیکھا کہ بونیر میں صحت کا نظام ٹھیک نہیں اور تھوڑے سے پیچیدہ کیس کے لیے مریض کو بڑے شہر لے جانا پڑتا ہے۔ میں انہی مسائل کو حل کرنے کے لیے میدان میں اتری ہوں۔‘

ڈاکٹر سویرا کا خیال تھا کہ طب کے میدان میں کام کرتے ہوئے وہ صرف مریضوں کی خدمت کر سکتی ہیں جب کہ انتخابات جیت کر صوبائی اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے قانون سازی کے ذریعے زیادہ لوگوں کی خدمت کر سکیں گی۔

وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں کبھی مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم بطور خاتون ایسا ضرور محسوس کیا۔

بقول سویرا: ’ایک مقصد سیاست میں حصہ لینے کا یہی ہے کہ خواتین اور نوجوان نسل آگے آ سکے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی بونیر کے خواتین ونگ کی جنرل سیکرٹری ہیں لیکن یہاں پر خواتین کی تنظیم باقاعدہ طور پر فعال نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم میں مردوں نے جو سپورٹ دیا ہے، وہ دیدنی ہے۔ 

ڈاکٹر سویرا نے کہا انہیں سوشل میڈیا پر کئی پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں دوسری جماعتوں کے لوگ ووٹ دینے کے وعدے کرتے ہیں۔

’مجھے بونیر کی بیٹی کہا گیا ہے، اس لیے بیٹی اور بہن ہونے کے ناطے اب بونیر کے لوگوں کی خدمت میرا فرض ہے۔‘

انتخابات پر اٹھنے والے اخراجات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا: ’یہاں کے لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور اسی سوچ کو لے کر عوام مجھے ووٹ بھی دیں گے۔‘ 

ڈاکٹر سویرا کی ویڈیوز اور انٹرویوز انڈیا میں بھی وائرل ہوئے ہیں اور وہاں سے بھی انہیں پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

بیرون ملک سے آنے والے پیغامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صرف انڈیا نہیں بلکہ نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی محبت کے پیغامات سوشل میڈیا پر مل رہے ہیں۔ 

عوام کا ردعمل

ڈاکٹر سویرا کے والد کے کلینک کے باہر پارٹی کارکنان جمع تھے اور ان کے بینرز اور پوسٹرز کے ساتھ سیلفیاں بھی بنا رہے تھے۔ 

وہاں موجود بونیر کے رہائشی ڈاکٹر سویرا کی حمایت بھی کر رہے تھے جب کہ بعض ان کے والد کی طب کے میدان میں خدمات کو سراہ رہے تھے۔

کلینک کے قریب ہی واقع ہوٹل کے مالک کا کہنا تھا کہ 25 سال سے سرکاری ہسپتال کے قریب ہوٹل چلا رہے ہیں لیکن ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’میں ڈاکٹر اوم پرکاش کی بیٹی کو ووٹ دوں گا اور اس امید کے ساتھ کہ وہ ابھی جوان ہیں اور صحت کے میدان میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔‘

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے بزرگ بختین محمد کا کہنا تھا کہ بونیر میں پی پی پی غیر فعال ہو چکی تھی لیکن ایک خاتون کو ٹکٹ دے کر جماعت کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین