گذشتہ ہفتے کے سب سے چونکا دینے والے تاثرات میں سے ایک یہ ہے کہ بحر اوقیانوس کے دونوں جانب اب یہ بات کسی حد تک قبول کی جا رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر کے لیے رپبلکن امیدوار ہونا یقینی ہے اور اگلے سال وائٹ ہاؤس میں ان کی واپسی یقینی ہے۔ اس تمام یقین کا ایک معقول جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ’ذرا ٹھہریں۔‘
یہ سچ ہے کہ ٹرمپ نے حالیہ تاریخ میں کسی بھی مدمقابل کے مقابلے میں اب تک سب سے زیادہ آسانی سے صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
آئیووا کاکسز کے بعد ان کی واحد حریف نکی ہیلی نے اپنی انتخابی مہم معطل کرنے سے قبل ورماؤنٹ اور واشنگٹن ڈی سی میں صرف دو مقابلے جیتے۔ وہ اپنی آبائی ریاست جنوبی کیرولائنا تک میں ہار گئیں جہاں وہ گورنر رہ چکی ہیں۔
یہ صورت حال صدارتی انتخاب میں شاید ہی کوئی امید افزا پیش خیمہ تھا۔ اب انہوں نے ٹرمپ کے لیے رپبلکن پارٹی کا امیدوار بننے کا راستہ صاف کر دیا۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کو اس وقت غیر متوقع تقویت ملی جب سپریم کورٹ نے انفرادی ریاستوں میں پرائمری مقابلوں سے باہر کیے جانے کے خلاف ان کی اپیل کو برقرار رکھا۔
یہ فیصلہ اپنے وقت کے اعتبار سے غیرمتوقع تھا نہ نوعیت کے اعتبار سے۔ متفقہ فیصلہ نام نہاد سپر ٹیوز ڈے سے ایک دن پہلے سنایا گیا جس میں 15 ریاستوں اور ایک علاقے میں پرائمری انتخابات ہوئے۔
اس معاملے میں متعلقہ مخصوص ریاست کولوراڈو تھی لیکن ریاست مین نے ٹرمپ کے پرائمری انتخاب لڑنے پر پابندی کا اعلان کیا اور توقع کی جا رہی تھی کہ دیگر ریاستیں بھی اس کی پیروی کریں گی۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ وفاقی انتخاب کے معاملے پر صرف کانگریس ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تین لبرل ججوں نے، جن کے بارے میں توقع تھی کہ شاید وہ ٹرمپ کی مخالفت کریں گے، یہ دلیل دیتے ہوئے فیصلے سے اپنے اتفاق کے بارے میں وضاحت کی کہ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ ’انتشار کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے کیوں کہ ہر ریاست کا اپنا قانون ہے جو وفاقی نظام کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘
کانگریس میں ووٹوں کے توازن اور انتخاب کے قریب ہونے کے پیش نظر اب اس معاملے پر کانگریس کے غور و خوض کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن کانگریس میں ووٹوں کے توازن اور انتخاب کے قریب ہونے کی وجہ سے کسی بھی فیصلے کا امکان نہیں۔
ٹرمپ کی صدارتی امیدوار نامزد ہونے یا صدر بننے میں کامیابی پر زیادہ تر ان سیاسی ماہرین اورانتخابی تجزیہ کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے جو جزیات پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ یہ انتباہ گذشتہ انتخابی مہم کے دوران سنے جانے والے انتباہ کا عکس ہے۔
2016 اور 2020 کے صدارتی الیکشن سے قبل یہ انتباہ رائے دہندگان کے غلط اندازوں کے بارے میں تھا کیوں کہ کم از کم ٹرمپ کے کچھ حامی عوامی سطح پر اپنی وفاداری کا اظہار کرنے سے خوف زدہ ہوسکتے تھے۔
اس بار یہ انتباہ ان ’خاموش‘ یا ’خفیہ غیر ٹرمپ رپبلکنز‘ کی تعداد کم سمجھنے سے متعلق ہے، جنہیں اب یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ اگر نومبر میں واقعی ٹرمپ اور بائیڈن کا دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے تو انہیں کہاں جانا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ انہوں نے پرائمری الیکشن میں نکی ہیلی کو ووٹ دیا ہو یا وہ گھر پر ہی رہے ہوں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ آئیووا، ٹیکسس اور نارتھ کیرولائنا سمیت کچھ ریاستوں میں، ٹرمپ کے حق میں ٹرن آؤٹ یا ووٹ توقع سے کم رہے۔
ہیلی اور ٹرمپ کے ووٹوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ کیا یہ صورت حال مستقبل کے حالات کا پیش خیمہ ہے؟
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ٹرمپ نومبر میں امریکہ کے صدر کے لیے رپبلکن امیدوار ہوں گے اور بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے تو اس صورت میں وہ رپبلکن ارکان جو ٹرمپ کے حامی نہیں، کو پارٹی چھوڑنے یا غیر حاضر رہنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
وہ کتنے ارکان ہیں؟ کیا چیز انہیں حزب اختلاف کو ووٹ دینے پر آمادہ کر سکتی ہے اور کتنے لوگ ووٹ ہی نہ دیں، یہ آنے والے مہینوں میں ووٹروں اور انتخابی مہم چلانے والی ٹیموں کے لیے بڑے سوالات ہوں گے۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹرمپ کے صدارتی امیدوار بننے کے عمل کو اس حد تک جانے سے پہلے روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔
لیکن سپریم کورٹ شاید ایسا کرنے والا ادارہ نہیں ہوگا۔ ریاستوں کی جانب سے کسی امیدوار کو پرائمری انتخاب سے دور رکھنے کے خلاف عدالتی فیصلے کو اس بات کے ٹھوس اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ صدارتی استثنیٰ کے معاملے میں بھی ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دے گی۔
بغاوت وہ واحد جرم ہے جس پر آئین کے تحت کسی کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے مخالفین چھ جنوری، 2021 کو کانگریس کی عمارت میں ہونے والے ہنگامے کو بغاوت قرار دینے اور ٹرمپ پر مقدمہ چلانے کے خواہاں ہیں۔
تاہم ٹرمپ کا اصرار ہے کہ وہ اس وقت بھی صدر تھے اور اسی وجہ سے انہیں عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس نکتے سے اتفاق کر لیا تو صدر بننے کے لیے ٹرمپ کی کوششں جاری رہیں گی۔ یہ موقع بھی استثنیٰ کی دلیل کے خلاف جا رہا ہے اور وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیے ٹرمپ کے سفر میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
سپریم کورٹ 25 اپریل کو سماعت شروع کرنے والی ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا امکان نہیں کہ ٹرمپ کے خلاف اس وقت زیر التوا دیگر مقدمات میں سے کسی کا فیصلہ موسم گرما میں پارٹی کنونشن یا پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے بہت پہلے ہو جائے۔
جیسا کہ انہوں نے بطور صدر کیا، ٹرمپ امریکی آئین کا پوری طرح سے امتحان لے رہے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر ٹرمپ کو جن عدالتی مقدمات کا سامنا ہے جن میں کئی دیوانی مقدمات سمیت چار فوجداری مقدمات، کیپیٹل ہل میں ہنگامہ اور بالغوں کی فلموں کی اداکارہ اور ہدایت کار سٹورمی ڈینیئلز کو ’خاموش‘ رہنے کے لیے مبینہ طور پر ادا کی گئی رقم بھی شامل ہیں، الیکشن سے پہلے ان کا فیصلہ سنا دیا جائے تو بھی آئینی طور پر ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو ان کے صدر منتخب ہونے یا جیل میں رہ کر بطور صدر کام کرنے کے راستے میں حائل ہو۔
کم از کم یہی خیال زیر بحث ہے۔ تاہم بحر اوقیانوس کے اس طرف اس طرح کے امکان پر گہرا شک پایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ٹرمپ کے حامی سزا یافتہ مجرم کو ووٹ دینے کے امکان سے پریشان دکھائی نہیں دیتے۔
درحقیقت وہ ٹرمپ کے خلاف الزامات اور جیل جانے کے امکان کو اس بات کا مزید ثبوت سمجھتے ہیں جو وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں یعنی نظام ان جیسے لوگوں اور ٹرمپ جیسے لوگوں کے خلاف کھڑا ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو صرف ان کی ٹرمپ کے لیے حمایت کو تقویت دیتی ہے۔
اگر ٹرمپ کو عدالتیں نہیں روکتیں تو کیا ایسی کوئی چیز ہے جو پھر بھی ان کے انتخاب اور بالآخر عہدہ صدارت تک پہنچنے کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے؟
ایک رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے یعنی ایسے اشارے موجود ہیں اگرچہ یہ اشارے واضح نہیں کہ ٹرمپ کے خلاف ایک خاموش رپبلکن ردعمل پایا جاتا ہے جو اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے، جو وہ اس وقت دکھائی دے رہا ہے اور یہ کہ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی جانب سے ’غیر ٹرمپ رپبلکنز‘ کے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ یہ گروپ ٹرمپ کے حامیوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ، بہتر، قانون توڑنے کا زیادہ مخالف اور کیپیٹل ہل ہنگامے کی زیادہ مذمت کرنے والا ہے۔
اگر اس گروپ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا ٹرمپ کے خلاف بڑھتے ہوئے عدالتی مقدمات کی وجہ سے اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے تو اس سے شاید رپبلکن پارٹی میں تقسیم کھل کر سامنے آ جائے گی، جو ایک اور رکاوٹ پیدا کر سکتی ہے یا کم از کم ٹرمپ کی صدارتی دوڑ کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
ابھی تک اس طرح کی تقسیم کے بہت کم اشارے ملے ہیں لیکن صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے ہونے والے سیاسی جماعتوں کے کنونشنوں کے انعقاد کو چھ مہینے باقی ہیں اور اس وقت تک بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
تیسری ممکنہ رکاوٹ کو ’بائیڈن عنصر‘ کہا جا سکتا ہے، جو کئی شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔ کیا ہوگا اگر بائیڈن کو دوبارہ انتخاب کی مہم ترک کرنے پر آمادہ یا مجبور کیا جائے؟
ٹرمپ کسی اور ڈیموکریٹ کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ یا کیا ہوگا اگر بائیڈن اس سے بہت بہتر انتخابی مہم چلائیں جو اس وقت ممکن نظر آ رہی ہے تو اس صورت میں ٹرمپ کو بھی اپنی مہم میں تیزی لانی پڑے گی۔
وہ اپنے آپ کو مضبوط تصور کرتے ہوئے پہلے ہی بائیڈن کو مباحثے کا چیلنج دے چکے ہیں لیکن صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔
امریکی ووٹرز کو بائیڈن کے سٹیٹ آف دی یونین خطاب سے ان امکانات کا کسی حد تک اندازہ ہوسکتا ہے۔
بائیڈن کے اپنے حالیہ بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نظرانداز ہونے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے 2020 میں ٹرمپ کو شکست دی تھی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent