کرکٹر راشد خان کی افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی ہٹانے کی اپیل

افغانستان میں خواتین پر میڈیکل کی تعلیم پر عائد پابندی اٹھانے کی درخواست کرتے ہوئے کرکٹر راشد خان نے اسے خواتین کے وقار پر اثرانداز ہونے والا مسئلہ قرار دیا ہے۔

30 اگست 2022، کو افغانستان کے کرکٹر راشد خان شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں ایشیا کپ ٹوئنٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میچ میں بولنگ کروانے کے بعد ردعمل دیتے ہوئے (سرجیت یادیو / اے ایف پی)

افغان کرکٹر راشد خان نے طالبان حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی اٹھا لیں۔

حال ہی میں افغان طالبان نے ملک بھر میں خواتین پر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں حکومت میں آنے کے بعد سے یہ نئی پابندی افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ایک نیا دھچکا ہے۔

طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے، میڈیکل کے شعبے کو اب تک استثنیٰ حاصل تھی مگر اب اس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر شیئر کیے گئے پیغام میں راشد خان کا کہنا تھا کہ ’تعلیم اسلامی تعلیمات میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور اسلام میں مردوں اور خواتین، دونوں کے لیے علم کے حصول پر زور دیا گیا ہے۔

’قرآن پاک علم کی اہمیت کو اجاگر کرتا اور دونوں کی مساوی روحانی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔‘

افغان ٹی 20 ٹیم کے کپتان نے لکھا: ’مجھے افغانستان میں حالیہ دنوں میں خواتین کے تعلیمی اور میڈیکل اداروں کی بندش پر انتہائی افسوس اور مایوسی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کے مستقبل بلکہ ہمارے معاشرے کے وسیع تر ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’سوشل میڈیا پر خواتین کا دکھ اور غم کا اظہار ہمیں وہ مشکلات باور کرواتا ہے جن کا وہ سامنا کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارا پیارا وطن افغانستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارے ملک کو ہر شعبے میں پیشہ ور افراد کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر میڈیکل کے شعبے میں۔‘

راشد خان نے خواتین کی میڈیکل کی تعلیم پر بھی پابندی عائد کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید کمی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ مسئلہ براہ راست خواتین کی صحت اور وقار پر اثرانداز ہوتا ہے۔

’ہماری ماؤں اور بہنوں کو ایسے میڈیکل پروفیشنلز کی ضرورت ہے، جو ان کی ضروریات کو حقیقی معنوں میں سمجھتے ہوں۔‘

انہوں نے حکومت سے درخواست کی: ’میں پورے دل سے اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کرتا ہوں تاکہ افغان لڑکیاں اپنی تعلیم کا حق دوبارہ حاصل کر سکیں اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔

’تمام عوام کو حصول علم کے یکساں مواقع فراہم کرنا نہ صرف ایک معاشرتی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ہمارے ایمان اور اقدار میں گہری جڑیں رکھنے والی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔‘

افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین پر تعلیم کے ساتھ کھیلوں میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد ہے، جس کی وجہ سے کرک انفو کے مطابق افغانستان کی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے مکمل رکن کی حیثیت بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال کی زد میں آ گئی ہے۔

طالبان رہنما کی جانب سے طب سے متعلق شعبوں میں نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر پابندی کے حکم نامے کے جاری ہونے کے ایک دن بعد بین الاقوامی تنظیموں، یورپی یونین، برطانیہ اور بعض افغان سیاسی شخصیات نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا۔

طالبان حکومت کی وزارت صحت عامہ (صحت) نے پیر کو افغانستان میں تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کو خواتین اور لڑکیوں کی طبی تربیت بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ دریں اثنا، افغانستان بھر میں ہزاروں لڑکیوں اور خواتین کو ان مراکز میں نرسنگ، فارمیسی، دندان سازی اور مڈوائفری کے شعبوں میں تربیت دی گئی اور وہ سمسٹر کے اختتام کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں۔

بدھ، 14 دسمبر کو ایک بیان میں یورپی یونین نے اس فیصلے کو ’بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور افغانستان میں خواتین کی تعلیم تک رسائی کے حق پر بلا جواز حملہ‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ طالبان کے اس فیصلے کو بہت نقصان پہنچے گا۔ انسانی بحران کی شدت اور لوگوں کے تکالیف کے پھیلاؤ سمیت اس کے نتائج برآمد ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین