کرونا وائرس جیسی خصوصیات رکھنے والی ہستیاں  

لمبی لمبی چھوڑنا، اپنی تعریفوں کے پُل باندھنا اور نہانے دھونے اور دانت، ہاتھ وغیرہ دھونے سے مکمل پرہیز کے علاوہ محفل میں دوسروں کو بات نہ کرنے دینا ان کی خاص پہچان ہوتی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کارٹون 

یقیناً آپ تائید فرمائیں گے کہ کچھ ہستیوں میں کرونا وائرس جیسی خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں کہ دوسرے لوگ انہیں آتا دیکھ کر رستہ بدل لیتے ہیں۔ اگر کسی محفل میں آ بیٹھیں تو حاضرین انہیں بہانے سے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی پر خود آٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

لمبی لمبی چھوڑنا، اپنی تعریفوں کے پُل باندھنا اور نہانے دھونے اور دانت، ہاتھ وغیرہ دھونے سے مکمل پرہیز کے علاوہ محفل میں دوسروں کو بات نہ کرنے دینا ان کی خاص پہچان ہوتی ہے۔

مرزا پہاڑ خان بھی کچھ ایسی ہی خصوصیات کے مالک تھے۔ آپ کالج میں ہمارے کلاس فیلو رہے۔ حصول علم کی خاطر کسی دوردراز دیہات سے بلاناغہ لاری سے لٹک کر کالج  آتے اور اس نیک مقصد کی خاطر سفرکی صعوبتوں اور موسم کی سختیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔ مرزا محترم اپنے قیمتی وقت کا غالب حصہ کالج کینٹین میں صرف کرتے اور پھر شہر کی سیاحت کے دوران اپنے عشقیہ اوصاف کے سبب ایک دو جگہ سے بے عزت ہونے کے بعد واپسی کا قصد کرتے۔ اگر آپم کبھی غلطی سے کلاس روم کا رخ کرتے تو اساتذہ کو اچانک سٹاف روم میں کوئی کام یاد آ جاتا اور طلبہ کا دل بھی گراؤنڈ میں جا کر فٹ بال کھیلنے کو مچلنے لگتا۔

مرزا کو پانی اوردرختوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا اورآپ ہر دو اشیا کے ضیاع کے سخت مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نہانے دھونے اور مسواک وغیرہ سے سال بھر میں ایک دو مرتبہ ہی ان کا واسطہ پڑتا۔ ان عادات جمیلہ نے آپ کی شخصیت کو ایسا نکھار بخشا تھا کہ ان کی گندمی رنگت سیاہی مائل اور آف وائٹ دانت پیلے زرد ہو گئے تھے۔ جب آپ قہقہ لگاتے توایسی قیامت ڈھاتے کہ قرب وجوار میں مکھی مچھر تو کیا، جراثیم بھی پھڑک پھڑک کر مر جاتے۔

سردیوں کے آغازمیں مرزا تیل اور مٹی کے داغوں سے مزین اپنی مخصوص بھاری بھرکم گرم جیکٹ پہن لیتے اور گرمیوں کے آغاز میں گھر والوں کے پرزور اصرار پر ہی اتارتے۔ جیکٹ چونکہ دھونے جیسے بے وقعت عمل سے کبھی نہ گزری تھی، لہٰذا اس میں سے ایک دلفریب سی بھینی بھینی خوشبو اٹھتی تھی جو دور ہی سے مرزا کی آمد کا اعلان کرتی اور ہم لوگ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ جاتے کہ ’لو، مرزا آ گئے، اب یہاں ہماری کیا ضرورت!‘

اس کے علاوہ دو اور خصوصیات بھی ان کی شخصیت کی پہچان تھیں۔ پہلی یہ کہ خرد و فہم سے مکمل ناپید ہونے کے طفیل ان کا دماغ ملکی خزانے کی طرح خالی تھا اور دوسری یہ کہ وہ ضمیر کے جھانسے میں کبھی نہ آئے۔ مرزا پہاڑ خان جب تک تعلیم کے ساتھ پنجہ آزما رہے، اپنے وضع کردہ ایک اصول پر پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے۔ امتحانات کے دنوں میں بلا جھجھک گنگناتے:

کوئی وجدا ڈھول ہوسی
میں پرچے ان دیساں، ٹیسٹ پیپر کول ہوسی

ایک دفعہ مرزا کمرہ امتحان میں چھاپہ مارٹیم کے ہاتھوں بُوٹی سمیت پکڑے گئے تو تین سال تک امتحان دینے کے لیے نااہل قرار پائے۔ مگر اپنے اصولوں کے اس حد تک پکے تھے کہ تین سال بعد جب دوبارہ کمرہ امتحان میں تشریف لائے تو ٹیسٹ پیپر پاس ہی تھا۔

مرزا کو موسیقی سے بھی شغف تھا۔ اکثر ترنگ میں آ کر کوئی اخلاق سوز گیت چھیڑ دیتے تو موسیقی کے ساتھ ایسی واردات کے دوران سُر، لے اور نغمگی کی آبرو پر رکیک حملے کرتے۔ ایسے میں کینٹین کے آخری سرے پر بھی  بیٹھے طلبہ کے علاوہ درختوں سے چرند پرند تک کوچ کر جاتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم مرزا کو پیار سے ’فاسق و فاجر‘ کہا کرتے تھے۔ آپ کو اس کا مطلب معلوم نہیں تھا، لہٰذا اسے کوئی اعلیٰ لقب خیال کر کے شاد ہوتے۔ پھر کسی دشمن نے انہیں اس کا مطلب بتا دیا تو مرزا ہم سے بہت ناراض ہوئے۔ ہم نے معذرت کر کے ان کا نام ’جنریٹر‘ رکھ دیا، کیونکہ ان کی آواز میں ایسا نکھار تھا کہ جب آپ گفتگو یا نغمے کے لیے  لب کشائی فرماتے تو لگتا کہ جیسے جنریٹر سٹارٹ ہو گیا ہے۔

ہم نے انہیں بتایا تھا کہ یہ ’سر‘ سے بھی بڑا لقب ہے۔ اس وقت لوڈشیڈنگ نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور چھوٹے شہروں میں جنریٹر بھی شاذ و نادر ہی تے، سو مرزا اس کی زیارت سے محروم تھے۔ بدقسمتی سے ہماری یہ کاوش بھی چھ ماہ سے زیادہ کامیابی سے ہمکنارنہ رہ سکی۔  ایک دن مرزا کو کسی کام سے راولپنڈی جانا پڑا اور لاری اڈے پر ان کے لنچ کے دوران ریسٹورنٹ کی بجلی چلی گئی۔ ہوٹل کے مالک نے چھوٹے کو جنریٹر چلانے کو کہا تو مرزا کے کان کھڑے ہو گئے۔

آپ نے بہ نفس نفیس چھوٹے کا پیچھا کر کے ہوٹل کے پچھواڑے جنریٹر کا معائنہ کیا اور سٹارٹ ہونے پر اس کی آواز بھی سنی تو سیخ پا ہو گئے۔ واپس آکر انہوں نے پوری کلاس کی کلاس لی۔

کئی سال تک مرزا کی تعلیم کے ساتھ سرد جنگ جاری رہی۔ آخر ناکامی نے ان کے قدم چومے اور انہیں اس میدان میں شکست فاش ہوئی۔

’تعلیم‘ سے فراغت کے بعد مرزا دکھی انسانیت کی خدمت کی خاطر جعلی ڈگریوں کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے اور لمبا مال کمایا۔ وہ اس بزنس کو اپنی رواتی عاجزی کی بنا پر باعزت دال روٹی کا نام دیا کرتے تھے۔

اسمبلیوں کے لیے بی اے کی ڈگری کی شرط ختم ہوئی تودھندے میں مندا دیکھ کر مرزا ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے دو نمبر ویزوں کے بزنس پر کمر بستہ ہو گئے۔ اس کے بعد آپ بحثیت ٹھیکیدار سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں گھپلوں کے ذریعے اپنے اور افسران کے بچوں کا پیٹ بھی پالتے رہے۔ بوگس کاغذات پر قرضہ حاصل کر کے مرزا نے ایک بنک کو مقدور بھر چُونا بھی لگایا۔ انہوں نے کچھ عرصہ تک چوری چکاری اور پلاٹوں کی ہیراپھیری سے بھی دال دلیا چلایا۔ اس دوران مرزا کو کئی دفعہ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی اور متعدد مرتبہ جیل یاترا بھی فرمائی۔

آج کل مرزا اپنے گاؤں سے شہر تک ایک کھٹارا سی مسافر وین چلاتے ہیں، جس کے پیچھے لکھا ہے ’کوئی جل گیا، کسی نے دعا دی،‘ حالانکہ جو بھی رسی سے بندھے دروازوں والی، بغیر بریک اور لائٹ اس وین کو دیکھتا ہے تو اس کے دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے کہ اس کے مسافر خیریت سے منزل تک پہنچ جائیں۔

مرزا پہاڑ خان کو شکایت ہے کہ اس ملک میں ٹیلنٹ کی ذرا بھی قدر نہیں، ورنہ آج وہ وزیر، مشیر تو ضرور ہوتے۔ دردناک لہجے میں پوچھتے  ہیں ’آخر مجھ میں کمی کیا ہے کہ میرے جیسے ٹیلنٹڈ لوگ ہر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں مگر میں یہ کرونا وین ہی چلا رہا ہوں؟‘

ان کی شدید خواہش ہے وہ بھی ٹرین  کے کسی حادثے کی صورت میں بحثیت وزیر میڈیا کے سامنے سینہ تان کر کہہ سکیں کہ ’کیا ٹرین میں چلا رہا تھا جو استعفیٰ دوں؟‘

وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تیل بجلی یا اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے پر وہ میڈیا کو بتائیں کہ اس سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دیدہ دلیری سے فرماتے ہیں: ’جب ہر محکمے میں مجھ جیسے کرونا وائرس موجود ہیں تو پھر میری خدمات سے فائدہ اٹھانے میں کون سا امر مانع ہے، جبکہ میں ملک کے لیے کرونا وائرس کی تمام خصوصیات رکھتا ہوں؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ