ٹھیک سو سال پہلے کی بات ہے۔ امریکی شہر سان ڈیاگو کا میونسپل سٹیڈیم لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہے۔ ہجوم امریکی صدر ووڈرو ولسن کی تقریر سننے کا منتظر ہے۔
یہ کوئی معمول کی تقریر نہیں ہے۔ پہلی عالمی جنگ ابھی کچھ عرصہ پہلے ختم ہوئی ہے اور دنیا میں یکایک بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ امریکی صدر فاتح اتحادی فوجوں اور شکست خوردہ جرمن حکام کے درمیان ہونے والے معاہدۂ ورسائی اور موجودہ اقوامِ متحدہ کی پیش رو تنظیم ’لیگ آف نیشنز‘ کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔
تقریر ہزاروں لوگوں نے سنی بھی، لیکن یہ ایک اور وجہ سے تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہو گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی شخص کی تقریر کو ایک برقی آلے کی مدد سے کئی گنا بلند کر کے پیش کیا گیا ہو۔
اس آلے کو اس وقت ’میگناواکس‘ کہا جاتا تھا اور اس کے دو موجدوں میں سے ایک صدر ولسن کے ساتھ سٹیج پر موجود تھا تاکہ اگر مائیک کے سلسلے میں کوئی مسئلہ ہو تو اسے فوری طور پر حل کیا جا سکے۔
تقریر کا اثر تو جو ہوا سو ہوا، لیکن اس تازہ ایجاد یعنی میگناواکس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس وقت کی اخباری رپورٹوں کے مطابق سٹیڈیم سے ایک میل دور کھڑے لوگوں کو بھی تقریر سننے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
یہی ایجاد بعد میں لاؤڈسپیکر کے نام سے مشہور ہوئی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس زمانے کے سست رفتار ذرائعِ ترسیل کے باوجود اس آلے نے ہندوستان پہنچنے اور پھر مسجدوں میں استعمال ہونے میں چھ سات سال سے زیادہ کا وقت نہیں لگایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ ہندوستان میں پہلی بار کس مسجد میں اور کب لاؤڈسپیکر کی آواز گونجی، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ صدر ولسن کی تقریر کے صرف ساڑھے سات برس بعد ہی اس کے استعمال کے بارے میں اس قدر تشویش پیدا ہو گئی کہ مفتیانِ کرام کو میدان میں آنا پڑا۔
اس بارے میں پہلا فتویٰ اس وقت کے جید عالم مولانا اشرف علی تھانوی کی جانب سے آیا جنہوں نے اس آلے کو حرام اور مسجد کے اندر اسے داخل کرنے کو مسجد کے احترام کے منافی قرار دے دیا۔ تھانوی صاحب اور دوسرے علما نے نہ صرف لاؤڈسپیکر کے استعمال سے منع کیا بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ جو نماز لاؤڈسپیکر کی آواز سن کر ادا کی جائے وہ سرے سے ہوتی ہی نہیں اور ایسی نماز کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
لیکن چونکہ لاؤڈسپیکر واضح طور پر علما کے لیے بےحد مفید آلہ تھا، اس لیے اس مختصر فتوے سے لوگوں کی تشفی نہیں ہوئی اور مختلف حلقوں کی جانب سے بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
آلۂ مکبر الصوت کی سائنس
اصل مسئلہ یہ تھا کہ علما کو یہ معلوم کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی کہ آیا لاؤڈسپیکر (جسے اس وقت ’آلۂ مکبر الصوت‘ کہا جاتا تھا) میں امام یا موذن کی آواز ہوبہو اپنی اصل حالت میں برقرار رہتی ہے یا یہ اس سے برآمد ہونے والی آواز اصل کا عکس یا بازگشت یا نقل ہے؟
ایک موقف یہ تھا کہ لاؤڈسپیکر دوربین کی طرح ہے، یعنی جس طرح دوربین دور کی چیزوں کو صاف دکھاتی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو چیزیں نظر آ رہی ہیں وہ اصل نہیں ہیں۔
دوسرا مکتبۂ فکر کہتا تھا کہ اس آلے کے اندر آواز کی حالت یا ماہیت ہی بدل جاتی ہے اور وہ بجلی کی لہروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
اگر پہلی صورت ہو تو پھر اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، لیکن دوسری صورت میں مسئلہ ہے کیوں اگر اس میں آواز ہی اصل حالت میں برقرار نہ رہی بلکہ برقی لہروں میں منتقل ہو گئی تو ان لہروں کی مدد سے جو نماز پڑھائی جائے گی وہ چونکہ امام کی آواز ہی نہیں ہے، اس لیے یہ نماز جائز نہیں ہو گی۔
ظاہر ہے کہ بیچ میں سائنس آ گئی تو مسئلہ سائنس ہی سے حل ہو گا، اس لیے علما نے ماہرین سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس زمانے کے ہندوستان میں صوتیات کے سائنس دان تو کہاں سے میسر آتے، اس لیے چند اساتذہ سے استفسار کیا گیا۔ دلچسپ بات ہے کہ ان میں برج نندن لال نامی ایک ہندو بھی شامل تھے جو بھوپال کے ایک ہائی سکول میں سائنس پڑھاتے تھے۔
گویا علما کے نزدیک ایک خالصتاً مذہبی معاملے کے حل کے ایک ہندو سے رجوع کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔
ماسٹر نندن لال کی تحقیق
نندن لال صاحب نے اس بارے میں اپنی جو رپورٹ پیش کی وہ بھی خاصی دلچسپ ہے، لیکن اس سے ان کی سائنس سے زیادہ انشاپردازی کی صلاحیتیں زیادہ کھل کر سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے لکھا:
’جب کسی شے میں حرکت پیدا ہوتی ہے تو اس عالم میں بیرونی ہوا پر اس کے صدمہ سے ایک صورت تموج کی پیدا ہوتی ہے جو اصل حرکت بحنسہ مطابق ہوتی ہے۔ ان کو تموجِ اصوات کہتے ہیں۔ جب کوئی شے ان کے سدِ راہ ہوتی ہے تو ان میں بازگشت یا لہر ہوتی ہے اور چند اصولوں کے تحت ان لہروں کا اجتماع ایک مرکز پر ہوتا ہے۔‘
اسی طرح کی چند باتوں کے بعد آخر میں ماسٹر صاحب نے تسلیم کر لیا:
’افسوس ہے کہ میرے پاس یا میرے علم میں کوئی کتاب سردست موجود نہیں ہے کہ جس میں اس جدید ایجاد کا ذکر کیا گیا ہو، لیکن یقین ہے کہ اگر کوئی علمِ طبیعیات کی کتاب جو حال ہی میں تیار ہوئی ہو اور جس میں جدید باتوں کا ذکر ہو تو اس میں اس کی تصدیق مل سکے گی۔‘
دوسرے ماہرین نے بھی اسی طرح کی باتیں کیں، کسی نے کہا کہ اصل آواز ہے، کسی نے کہا عکس ہے۔
لاؤڈسپیکر سے پہلے ہندوستان میں آواز سے متعلق دو دوسرے مقبول سائنسی آلے موجود تھے جن سے علما روشناس تھے۔ ان میں سے ایک ٹیلی فون تھا اور دوسرا گراموفون۔ علما کے نزدیک ٹیلی فون درست تھا مگر گراموفون نادرست کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک میں آواز توے پر ریکارڈ ہو کر نشر ہوتی ہے، جب کہ دوسرے میں ریکارڈ نہیں ہوتی بلکہ براہِ راست نشر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اس زمانے میں مشہور گویوں کے ریکارڈ بنتے تھے جو ملک بھر میں بےحد مقبول ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مہنگے گراموفون عوام کی پہنچ سے تو بہت دور تھے لیکن ہوٹلوں اور دوسرے عوامی مقامات پر انہیں عام بجایا جاتا تھا جہاں لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ موسیقی سے محظوظ ہوا کرتے تھے، اس لیے رفتہ رفتہ گراموفون کا نام ہی ناچ گانے سے جڑ گیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گراموفون سے کراہت کی بنا پر علما نے اس پر قرآن سننے کو بھی غلط ٹھہرایا تھا۔
لیکن جب اس تیسری ایجاد یعنی آلۂ مکبر الصوت کا غلغلہ ہوا تب سوال گونجا کہ آیا یہ ٹیلی فون سے مشابہ ہے یا گراموفون کی مانند ہے؟ جیسا کہ اوپر لکھا گیا، اس ضمن میں کوئی شافی رائے نہ آ سکی اور پرنالہ جہاں تھا وہیں رہا۔
دوسرے مکاتب کا کیا موقف تھا؟
یہ تو حال ہوا دیوبندی علما کا، دوسرے مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علما لاؤڈسپیکر کو درست اور جائز سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر اہلِ حدیث عالم عبداللہ امرتسری 1938 میں ایک رسالے ’آلۂ جہیر الصوت وغیرہ کی شرعی حیثیت‘ میں لکھتے ہیں:
(آواز کی) ’ظاہر صورت شکل یہاں محفوظ ہے، کیوں کہ جو لاؤڈسپیکر میں بولتا ہے بظاہر اسی کی آواز ہم سنتے ہیں، دوسری آواز یہاں معلوم نہیں دیتی۔۔۔ اگر یہ صدائے بازگشت ہوتی، جیسے پہاڑوں وغیرہ میں سنائی دیتی ہے تو پھر ہیت کذائی میں فرق پڑ سکتا تھا، پس جب ہیت کذائی محفوظ رہی تو ان مواضع میں لاؤڈسپیکر کا استعمال بھی جائز ہوا۔‘
لیکن بات صرف لاؤڈسپیکر تک محدود نہیں تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ سائنس آئے روز نت نئی خرخشے چھوڑتی رہتی ہے، چنانچہ ابھی آلۂ مکبر الصوت والا جھگڑا فیصل نہیں ہوا کہ ایک اور علت میدان میں آ گئی، یعنی ریڈیو۔ اب ایک اور مسئلہ شروع ہو گیا کہ کیا ریڈیو پر تلاوت سننا یا سنانا جائز ہے یا نہیں۔ مولانا تھانوی نے اس بارے میں جو تحریر لکھی، اس کے الفاظ ہیں:
’جس ریڈیو میں گانا بجانا بھی ہو تو اس میں کسی طرح بھی نہ قرآن پڑھنا جائز ہے نہ سننا، بلکہ اس پر قرآن پڑھنا یا سننا قرآن کی بےحرمتی کا سبب ہے۔ ۔ ۔ اس لیے اس کا لگانا اور سننا علی الاطلاق حرام ہے۔‘ اسی طرح سے بریلوی اور شیعہ علما نے بھی لاؤڈسپیکر کا خیرمقدم کیا اور اس پر کوئی پابندی عائد کرنے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اس کے چند برس بعد انہوں نے اپنی رائے پر نظرِ ثانی کر لی، البتہ اب کی بار جو فیصلہ لکھا اس کی عبارت کم از کم ہمارے پلے تو نہیں پڑی۔ آپ ہی یہ ڈور سلجھائیے:
’اس کی حالت ٹیلی فون کے مشابہ ظاہر کی گئی ہے، سو اگر ایسا ہے تو اس کا حکم ٹیلی فون کی مثل ہو گا یعنی اس میں اصات طاعت تعبدیہ کے استماع کا جواز ہے، البتہ اگر باوجود آلۂ تلہی نہ ہونے کے کوئی دوسرا مانع جواز ہو گا تو اس عارض کے سبب پھر منع کیا جاوے گا، مثلاً قاری کو اجرت دینا یا مسمع یا مستمع کا غیر طاعت کے قصد سے سنانا یا سننا جیسا فقہا نے تصریح فرمائی ہے کہ تاجر کا فتح متاع کے وقت ترویج سلعہ یا ترغیب مشرکین کی غرض سے درود شریف پڑھنا یا حارس کا ایقاظ نائمین کی غرض سے تہلیل کا جہر کرنا۔۔۔‘
علما کا ’یو ٹرن‘
اس دوران تقسیمِ برصغیر کے ہنگاموں اور قیامِ پاکستان کے ابتدائی ایام کے ہنگاموں میں لاؤڈسپیکر والا معاملہ پسِ پشت چلا گیا لیکن چونکہ علما میں اختلاف تھا، اور اس آلے میں بڑی سہولت تھی، پھر بجلی بھی ہر جگہ پہنچنے لگی تھی، اس لیے بھارت اور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی مسجدوں میں لاؤڈسپیکر کا چلن ہوتا چلا گیا۔
مزید یہ واقعہ گزرا کہ دوسرے مسلمان ملکوں سے خبریں آنے لگیں کہ وہاں مسجدوں میں لاؤڈسپیکر عام استعمال ہو رہا ہے، حتیٰ کہ مکہ اور مدینہ میں بھی اسی کی مدد سے نماز پڑھائی جاتی ہے۔ اب سوالات کا تانتا بندھ گیا کہ اگر کسی نے حج کے دوران لاؤڈسپیکر پر نماز پڑھی ہے تو کیا اس کی نماز اور حج بھی فاسد ہو گئے؟
اس مسائل کے پیشِ نظر علما نے ایک بار پھر اس پر تفتیش و تحقیق شروع کر دی کہ اس معاملے کو کسی طرح حل کیا جائے۔
چونکہ آواز کی اصل نقل والی گرہ ابھی باقی تھی اس لیے اب کی بار ریڈیو پاکستان کے حکام اور صوتیات کے ماہرین کو خط لکھے گئے کہ وہ بتائیں لاؤڈسپیکر میں آواز اصل رہتی ہے یا نقل۔
ماہرین نے جواب میں لکھ بھیجا کہ اس آلے میں آواز بعینہ امام کی آواز ہوتی ہے، نہ کہ نقل۔ اس بنیاد پر مفتی محمد شفیع نے موقف تبدیل کرتے ہوئے 1951 میں، گویا پہلے فتوے کے 23 سال بعد، فیصلہ دے دیا کہ لاؤڈسپیکر سے پڑھی جانے والی نماز فاسد نہیں ہوتی۔
یہاں یہ فرق واضح کرنا ضروری ہے کہ اذان کا حکم الگ ہے اور نماز کا الگ۔ آج تقریباً سبھی علما اذان کے لیے مکبر الصوت کا استعمال جائز سمجھتے ہیں لیکن چند ایسے ہیں جو اسے نماز کے لیے غلط مانتے ہیں۔
مسلکی اختلافات
اب مسجد کے اندر جانے کی ضرورت نہیں، میلوں دور ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ جہاں سے صدا بلند ہو رہی ہے، اس مسجد کا تعلق کس مسلک سے ہے۔ اگر کہیں سے درود اور ذکر کی آواز آتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں کس کی اکثریت ہے۔ بلکہ مسالک کی اذان بھی مختلف ہے اور صرف اذان سن کر بھی فرقے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لاؤڈسپیکر کے فائدے اپنی جگہ، لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے مسلکی اختلافات کو بھی ہوا ملی ہے۔
لاؤڈسپیکر کی اصل سائنس
اب یہاں آپ پوچھیں گے کہ لاؤڈسپیکر کی سائنس کیا ہے، یعنی یہ کس طرح آواز کو بڑھا کر پیش کرتا ہے اور کیا یہ آواز اصل رہتی ہے یا نقل؟
اوپر کی بحث سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اس کا جواب اتنا آسان نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اتنا زمانہ ماہرین کو مصروف رکھا۔ لیکن کوئی ہم سے پوچھے تو ہماری ناقص رائے میں ۔۔۔
لیکن ہماری رائے جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ لاؤڈسپیکر کیسے کام کرتا ہے۔ اس آلے کا سب سے پہلا جزو مائیک ہے۔ جب کوئی بولتا ہے تو مائیک آواز کی لہروں کو برقی لہروں میں تبدیل کر لیتا ہے، گویا آواز کی حقیقی حالت بدل کر کسی اور حالت میں ڈھل گئی۔ حالت کی بنیادی تبدیلی کے دو ثبوت ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جب مائیک آواز کو برقی سگنل میں منتقل کرتا ہے تو اب اس حالت میں کان اسے سن نہیں سکتے۔ کانوں کے سننے کے لیے ضروری ہے کہ ایک اور آلہ مائیک کے برعکس عمل کرتے ہوئے برقی سگنل کو دوبارہ آواز کی لہروں میں تبدیل کر لے۔
دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہوا میں آواز کی رفتار 343 میٹر فی سیکنڈ ہے، لیکن جب یہ برقی سگنل میں منتقل ہوتی ہے تو اس کی رفتار تقریبا پونے نو لاکھ گنا تیز ہو کر 30 کروڑ میٹر فی سیکنڈ ہو جاتی ہے۔ اس عظیم فرق کو ایک مثال سے سمجھیے کہ اگر آواز کی رفتار سے چاند تک کا سفر کیا جائے گا تو اس میں 13 دن صرف ہوں گے، جب کہ برقی لہروں کی رفتار سے چلا جائے تو یہی فاصلہ سوا سیکنڈ میں طے ہو جائے گا!
اس کا مطلب یہ ہوا کہ برقی سگنل بننے کے بعد آواز کی بنیادی اور جوہری خصوصیات زائل ہو جاتی ہیں اور اب اس کو ہرگز آواز نہیں کہا جا سکتا۔ اس سگنل کو دوبارہ کانوں کی مدد سے سنانے کا فریضہ سپیکر سرانجام دیتا ہے۔ جب مائیک سے لگی تار آواز کو برق رو میں بدل کر مسجد کے میناروں پر لگے سپیکروں تک بجلی کی رفتار سے پہنچاتی ہے، تو ان سپیکروں کے اندر نصب مکینزم برقی سگنل کو دوبارہ آواز کی شکل میں ڈھال کر نشر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امام کی اصل آواز نہیں ہے بلکہ اسی طرح اس آواز کی نقل ہے جیسے ہزار روپے کے نوٹ کی فوٹو سٹیٹ کاپی اس کی ہوبہو نقل تو ضرور ہوتی ہے اور اس کا سائز بھی حسبِ ضرورت گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن اسے اصل نوٹ نہیں کہہ سکتے (نہیں تو پکڑے جائیں گے!)
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
یہ بحثیں اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکر ہماری زندگی کا اٹوٹ انگ بن گیا ہے۔ ہمارے ہاں سے کوئی سیاح کسی مغربی ملک پہنچتا ہے تو چند دن تک اسے غیر محسوس طریقے سے فضا میں ایک عجیب بےکیف سکوت چھایا معلوم ہوتا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں چاروں طرف سے آلۂ مکبر الصوت کی بدولت سینکڑوں گنا بلند کی گئی آواز میں اذان، تلاوت، نعتیں، تقاریر، حتیٰ کہ گمشدگی اور فوتگی وغیرہ کے اعلانات نہیں گونج رہے۔
لیکن خیر، ایسی بھی اداسی کی بات نہیں۔ اب تو مغربی ملکوں میں بھی لاؤڈسپیکر پر اذان دینے کو مباح قرار دے دیا گیا ہے، چنانچہ دو روز قبل لندن کی ایک محلے کی فضائیں پہلی بار لاؤڈسپیکر کے ذریعے دی جانے والی اذان سے مرتعش ہوئیں، جب کہ ہالینڈ اور جرمنی میں اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقامی مسلمانوں کو تو فائدہ ہو گا ہی، ہمارے ہاں سے جانے والے پردیسیوں کو بھی دیارِ غیر میں اجنبیت کا احساس نہیں رہے گا۔
چلتے چلتے ایک خیال: لاؤڈسپیکر کے موجد پیٹر جینسن اور ایڈون پریڈم کا تعلق ڈنمارک سے تھا۔ ان کی اولاد نہ سہی، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں آج بھی یورپ میں موجود ہوں گے۔ اگر برطانیہ یا جرمنی یا ہالینڈ کی گلیوں میں چلتے چلتے ان کے کانوں میں اپنے دادا/نانا کے ایجاد کردہ آلے سے نشر ہونے والی اذان کی آواز آئے اور انہیں پتہ چل جائے کہ اس ایجاد پر ہندوستان میں کیا کیا ہنگامے رہے ہیں اور کیا کیا معرک بپا ہوئے ہیں تو نہ جانے وہ کیا سوچیں!