اگلے وقتوں میں آمدورفت اور بار برداری کا کام گھوڑوں، گدھوں، اونٹوں اور خچروں سے لیا جاتا تھا۔ آمدورفت کے لیے ماضی قریب تک پاکستان کے تقریباً تمام شہروں میں تانگہ ایک بہترین سواری کے طور پر استعمال ہوتا رہا، لیکن جدید دور میں جہاں زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور قدیم اشیا کی جگہ جدید ٹیکنالوجی نے لے لی ہے، وہیں ذرائع آمد و رفت کے لیے بھی اب کاریں، موٹر سائیکل، ویگنیں اور بسیں آ گئی ہیں۔
اس کے علاوہ چین سے درآمد چنگ چی نے ٹرانسپورٹ میں سستی ٹرانسپورٹ ممکن بنا دی ہے۔ دوسری طرف موٹر سائیکل تو اتنے کم قیمت ہو گئے ہیں کہ تقریباً ہر ملازمت پیشہ شخص موٹر سائیکل خرید سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں سے تانگے ناپید ہوتے چلے گئے، البتہ آج بھی ایک شہر ایسا ہے جہاں تانگوں کا چلن برقرار ہے۔
جنوبی خیبر پختونخوا کے شہر بنوں کے علاقے بازار احمد خان کے شہری ملک شکیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں آمدورفت کی دیگر تمام سہولیات کے باوجود اب بھی تانگے کی سواری موجود ہے اور لوگ آج بھی تانگے کی سواری کو پسند کرتے ہیں اور اسے شاہی سواری کہتے ہیں۔‘
سابق ڈائریکٹر محکمہ آبپاشی پیر سید قیصر عباس شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تانگہ آج بھی ہمارے علاقے کی پہچان ہے۔ یہاں کے لوگ تانگہ کی سواری پر فخر محسوس کرتے ہیں اور تانگے کی روایت یہاں کے مکین اور بزرگوں کی وجہ سے زندہ ہے۔ یہاں کے مکین تانگے کی روایت کو ختم ہونے نہیں دیتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تانگہ میں موجود ایک سوار عبدالقیوم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پہلی بار تانگے میں سفر کر رہا ہو ں اور اس سفر کو انتہائی پرسکون محسوس کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئندہ بھی اگر میں بازار احمد خان کی طرف جاؤں گا تو کسی بھی گاڑی کے مقابلے میں تانگے میں سفر کو ترجیح دوں گا۔‘
کوچوان سعد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں کئی برسوں سے کوچوان ہوں اور تانگہ چلا رہا ہوں اور اس جدید دور میں بھی علاقے کے لوگ گاڑیوں میں نہیں بلکہ تانگہ میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ہم کرایہ بہت کم لیتے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ سفر بھی پرسکون ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دیگر علاقوں کے لوگ بھی جب دیکھتے ہیں کہ یہاں تانگہ اب بھی چلتا ہے تو وہ بھی تانگے میں سفر کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی سبب ہے کہ اس جدید دور میں بھی اڈے میں دس تانگے موجود ہیں اور تمام تانگہ بان دن بھر مصروف ہوتے ہیں اور روزانہ مناسب کمائی ہو جاتی ہے۔‘
سعد اللہ کے مطابق: ’میرا ذاتی تجربہ بھی بہت خوشگوار رہا کیوں کہ یہاں تک آتے وقت میں نے سو روپے کرایہ دیا تھا اور تانگہ یعنی شاہی سواری میں واپسی کرتے وقت محض دس روپے دیے۔ اس سواری کو کم خرچ بالا نشیں کیوں کہا جاتا ہے آج عملی طور پر جان گیا۔‘