پاکستانی وزارت خارجہ نے انڈیا میں مئی میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کی تصدیق کی تو جہاں انڈین میڈیا نے اپنی حکومت کے اس موقف کو جتایا کہ پاکستان نے کشمیر کی غیر متنازع حیثیت کو اب تسلیم کرلیا ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے ہر گھر میں حکومت پاکستان کو کوسا جا رہا ہے کہ اس نے کتنی آسانی سے دوبارہ ان کی سات دہائیوں پر محیط جدوجہد کو ایک معمولی دورے کے لیے دفن کر دیا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
لوگ سرگوشیاں کرتے رہے کہ جس پاکستان کو کشمیری ایک مضبوط سہارا تصور کرتے آ رہے تھے اس نے اپنے مفادات کی خاطر انہیں پھر ایک بار قربانی کا بکرا بنا دیا۔
حیرانی کی بات ہے کہ بلاول بھٹو کا انڈیا آنے کا ابھی اعلان ہی ہوا تھا کہ جموں کے متصل پونچھ علاقے میں پولیس کے مطابق ایک ’دہشت گرد‘ حملے میں سکیورٹی فورسز کے پانچ سپاہیوں کو زندہ جلانے کی خبر آگئی۔
انڈین میڈیا نے فورا یہ مطالبہ کر دیا کہ مودی سرکار کو پاکستان کے وزیر خارجہ کو کانفرنس میں شرکت سے روکنا چاہیے۔
انڈیا کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ پاکستان سے مذکرات تب تک ممکن نہیں جب تک سرحد پار ’دہشت گردی‘ روکی نہیں جاتی۔ مودی سرکار نے بارہا الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں آئے روز سکیورٹی فورسز پر جو حملے کیے جاتے ہیں جن کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوتی ہے۔ پاکستان ان الزامات کو ہمیشہ رد کرتا آیا ہے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستان کے ہم منصب کے ساتھ شنگھائی کانفرنس کے دوران باہمی ملاقات کریں گے تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ ایسے پڑوسی سے بات کرنا انتہائی مشکل ہے جو سرحد پار سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کے منصوبے بناتا ہے۔
دوسری جانب کشمیری قوم پر سکتہ طاری ہے۔ وہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے صدمے سے باہر نہیں آ پا رہی ہے۔ عوام خاموش تو ہیں لیکن انتہائی بے چین اور پریشان۔ کوئی سہارا ہے اور نہ کسی ملک کی جانب سے ہمدردی کے دو الفاظ کا اظہار ہے۔
اس پر ستم یہ کہ پاکستان کا جو خود اس تنازعے کا ایک فریق رہا ہے طرز عمل انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو رہا ہے۔
پاکستان نے گذشتہ چار برسوں سے نہ صرف ایک معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق متنازعہ فوجی سربراہ نے انڈیا کے ساتھ باہمی مشورے کے بعد کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ سابق سربراہ نے ان خبروں کی تردید یا تائید ابھی تک نہیں کی ہے۔
کشمیر کے ایک نامور روزنامے کے ایڈیٹر کہتے ہیں کہ ’انڈیا ہمارے سینے پر گولی مارتا رہا ہے اور ہم ہر بار زخم پر پھاہا رکھ کر مزاحمت کرتے رہے ہیں مگر پاکستان نے ہمیشہ ہماری پیٹھ پر چھُرا گھونپ دیا۔ کبھی سنبھلنے کا موقعہ بھی نہیں دیا، جنرل باجوہ مودی کی میزبانی کی تیاری میں مصروف تھے اور ہم نادان کشمیری سمجھ رہے تھے کہ پاکستان ہمارے لیے سینہ سپر کھڑا ہے۔ بلاول انڈیا آئے یا خود فوجی سربراہ، شاید ہی کوئی کشمیری بچا ہے جو اس ملک یا اس کے حکمرانوں پر اب بھروسہ کرسکتا ہے۔‘
آزادی پسندوں یا قوم پرست کشمیریوں نے پہلے ہی انڈیا پاکستان دونوں ملکوں سے علیحدگی اختیار کرنے کا علم بلند کیا ہے لیکن جموں و کشمیر میں پاکستان نوازوں کا ایک مضبوط حلقہ موجود ہے جو سات دہائیوں سے انڈیا کے عتاب کے زیر سایہ رہا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے الحاق پاکستان کی رسی کو ہمیشہ تھامے رکھا۔
جموں و کشمیر کی پاکستان نواز آبادی کو پہلا دھچکا جنرل ایوب نے ساٹھ کی دہائی میں اس وقت دیا جب انہوں نے سندھ تاس معاہدے کے عوض کشمیر کو پس پشت ڈالا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 71کی جنگ کے مبینہ ’90 ہزار‘ جنگی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں کشمیر مسئلے کو عالمی سے باہمی مسئلہ بنا دیا۔
جنرل مشرف نے اس باہمی مسئلے کو چار نکات پر محدود کرکے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تنظیموں کے تمام دفاتر بند کر دیے۔
آخری دھچکا جنرل باجوہ نے دیا جب انہوں نے انڈیا کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے پر خاموشی اختیار کر کے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کرا دی اور مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کے مودی سرکار کے فیصلے کی بظاہر حمایت کر دی۔
پاکستان کی پانچ اگست 2019 کے بعد خاموشی، خفیہ ملاقاتیں اور اس مسئلے کو بند ڈبے میں رکھنے کے جو حالیہ انکشافات ہوئے اس سے کشمیری قوم سے زیادہ خود پاکستان کی تضحیک ہوئی ہے۔
شہباز شریف کا وہ بیان سم قاتل ہے جب انہوں نے انڈیا کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ انہوں نے اب تین چار جنگیں ہار کر تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے۔ یعنی کشمیر پر ان کا حق جتانا ان کی بیوقوفی تھی۔
شاید آپ کو یاد ہوگا کہ 16 برس کے نوجوان اطہر مشتاق کی لاش آج تک والدین کو نہیں ملی جو بندوق بردار نہیں تھا لیکن ٹیوشن سینٹر سے واپسی پر ایک انکاونٹر میں اسے بندوق بردار جتا کر ہلاک کردیا گیا تھا اور 100 کلومیٹر دور نامعلوم مقام پر دفن کر دیا گیا۔ اس کے والد کا مطالبہ یہ نہیں کہ ایک بے گناہ طالب علم کو کیوں مار دیا گیا بلکہ دوسرے ہزاروں والدین کی طرح یہ مطالبہ ہے کہ لاش تو واپس دے دیتے تاکہ اپنے مذہب کے مطابق ان کا جنازہ پڑھ لیا ہوتا۔
شہباز شریف کو کم از کم جنگیں ہار کرسبق سیکھنے سے پہلے اطہر مشتاق اور دوسرے ہزاروں نوجوانوں کی لاشیں واپس کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا کیوں کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں جس نے کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بندوق تھما کر انڈیا کے خلاف کھڑا کر دیا تھا۔ سرحد کی لکیر پر ان غیر شناختی ہزاروں قبروں کی شناخت کر کے ان کے پیاروں کو کم از کم بتاتے کہ وہ کس جرم میں مروائے گئے اور کیوں پھر نامعلوم قبروں میں دفنائے گئے ہیں۔
کیا رابطوں سے پہلے اس ملک کی اخلاقی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ لاکھوں کشمیری سوگوار خاندانوں سے پہلے معافی مانگتا یا پھر سیاسی و معاشی دیوالیہ پن کی طرح یہ ملک اب اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہوچکا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پلوامہ کا سابق بندوق بردار محمد شمیم جو تحریک کے دوران جسمانی طور معذور ہونے کے باوجود اس وقت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی سیاسی آزادی کی خاطر بندوق اٹھائی تھی اور یقین تھا کہ پاکستان میری اس جدو جہد میں شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ یہ سب سچ اب ثابت ہوا۔ جب ضرورت پڑی ہمیں استعمال کیا اور جب چاہا مکھی کی طرح ہمیں دور پھینک دیا۔‘
پونچھ کے حالیہ حملے کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کو انڈیا آنے سے روکا جائے لیکن پونچھ کے ایک صحافی کہتے ہیں کہ ’سب کو پختہ یقین ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، راجوری اور پونچھ میں حالیہ حملے، ہندو شہریوں کو اسلحہ اور اس کی تربیت دینا اس کے واضح اشارے ہیں۔
گوکہ ان حملوں کی ذمہ داری پاکستان کے شدت پسندوں پر ڈالی جاتی ہے لیکن سرحد پر انتہائی سخت سکیورٹی ہونے کے باعث اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ ایسے حالات میں بلاول بھٹو کا انڈیا آنا پاکستان کے لیے باعث ملامت ہوگا۔
بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پاکستان شنگھائی تنظیم کا ایک کلیدی کردار رہا ہے اور وہ گوا کانفرنس میں اہم رکن کی حثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ ایک جانب جنگی جنونیت کا سماں، دوسری جانب بلاول بھٹو کا دورہ انڈیا جب تقریباً 12 برسوں سے دونوں ملکوں کے سفارتی رابطے منقطع ہیں۔
ایسے میں انڈیا اور پاکستان کے مابین بنیادی سفارتی رابطے قائم ہونے کا کسی کو یقین ہے نہ کسی باہمی ملاقات کا امکان ہے۔
ہر شہری قیام امن کی خواہش تو کر رہا ہے مگر کشمیریوں کے حقوق پر شب خون مار کر کیا یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب تو دینا ہوگا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے نیو یارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ قرار دیتے ہوئے بلاول بھٹو کو پڑوسی دیش کی نہ صرف شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ حکمران جماعت بی جے پی نے ملک بھر احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے۔
اب انڈیا جاکر وہ مودی کا سامنا کیسے کریں گے یہ سماں قابل دید ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی آرا پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔