جب ہارون رشید نے عظیم یورپی شہنشاہ کو ہاتھی کا تحفہ دیا

جب ہارون الرشید کے سفیر یورپ کے سب سے بڑے حکمران شارلیمان کے دربار پہنچے تو تحائف میں ایک زندہ ہاتھی بھی شامل تھا جسے دیکھ کر سب حیرت زدہ رہ گئے۔

ہارون رشید کا بطور تحفہ بھیجا گیا ہاتھی جسے فرانس پہنچنے میں دو سال کا عرصہ لگا (پبلک ڈومین)

تاریخ 20 جولائی، سال 802 عیسوی، مقام موجودہ جرمنی کا دورافتادہ شہر آخن۔

شہنشاہِ فرانس شارلیمان کے دربار میں آج معمول سے زیادہ گہما گہمی تھی۔ وزرا اور درباریوں کی نظریں شہر سے باہر جانے والے راستوں پر لگی تھیں۔

کیا شاہی فوج کے کارندے اور کیا عام شہری سب تجسس کے ہاتھوں مجبور، آنے والوں کی راہ دیکھ رہے تھے۔

خود شہنشاہِ معظم کی حالت کچھ مختلف نہ تھی۔ انہیں بھی جنوب سے آنے والے قاصدوں کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔

پہر دن گزرا تو آخر انتظار ختم ہوا۔ بغداد سے لوٹنے والے قاصد اسحٰق الیہودی نے شہری حدود میں قدم رکھا تو دیکھنے والوں کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

قاصد کو میزبان کی طرف سے جو تحائف دے کر بھیجا گیا تھا ان میں کئی قیمتی کپڑوں، خوشبوؤں اور دیگر عجائبات کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور جوان ہاتھی بھی شامل تھا جسے عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے شارلیمان کی درخواست پر بھجوایا تھا۔

بیچارے یورپی باشندے جنہوں نے اس سے قبل ہاتھی کا ذکر فقط کہانیوں میں سنا تھا، اس بلا کو دیکھ کر اس قدر ہیبت زدہ ہوئے کہ آئندہ کئی سالوں تک یہ ہاتھی یورپ میں شہنشاہی رعب کی علامت بنا رہا۔

آدھی دنیا کا سفر کر کے آنے والے اس عجیب و غریب تحفے میں خاص کیا تھا؟ اس کو سمجھنے سے پہلے شارلیمان کو جاننا ضروری ہے۔

’بابائے یورپ‘ شارلیمان کون تھے؟

چارلس عظیم جنہیں انگریزی میں شارلیمان کہا جاتا ہے، آٹھویں صدی عیسوی میں یورپی فرانکوں کے بادشاہ بنے۔

ان کی سلطنت میں موجودہ فرانس، جرمنی، اٹلی، سوئزرلینڈ وغیرہ سمیت تقریباً سارا مغربی اور وسطی یورپ شامل تھا۔

768 میں اپنے باپ کی وفات کے بعد بادشاہ بننے والے چارلس نے اٹلی سمیت کئی اہم علاقے اپنے دور میں فتح کیے۔

تاہم ان کی شہرت اس بنیاد پر ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ یورپ کی بکھری ہوئی ریاستوں کو اکٹھا کر کے ایک سلطنت قائم کی، جس کی بنیاد پر تاریخ دان انہیں جدید یورپ کا باپ قرار دیتے ہیں۔

مؤرخین کے مطابق موجودہ یورپ کے کئی شاہی خاندان براہ راست شارلیمان کی اولاد ہیں۔

تاہم جس وقت شارلیمان نے تخت سنبھالا اس وقت عرب دنیا بھر میں اپنی فوجی طاقت کا سکہ بٹھا چکے تھے۔ شارلیمان کی یہ وسیع سلطنت دو طرف سے عرب ریاستوں میں گھری ہوئی تھی۔

مغرب کی جانب اندلس میں اموی اپنا اقتدار قائم کر چکے تھے جبکہ جنوب میں بحیرۂ روم کے پار افریقہ سے ہندوستان تک عباسیوں کی عمل داری تھی۔

لبنانی امریکن مورخ فلپ۔ کے۔ حتی کے مطابق ’نویں صدی عیسوی کے آغاز تک دنیا میں دو انتہائی مضبوط اور طاقتور حکمرانوں کو اقتدار مستحکم ہو چکا تھا۔

مغرب میں شارلیمان جبکہ مشرق میں ہارون الرشید کی حکمرانی تھی۔ ان میں سے ہارون الرشید یقیناً زیادہ طاقتور تھے اور ایک بڑی ثقافت کی نمائندگی کر رہے تھےـ‘

اپنے وقت کی یہ عظیم سلطنتیں دنیا کے دو اہم مذاہب کی نمائندہ تھیں۔ شارلیمان کو آج بھی مسیحی دنیا میں اہم مقام حاصل ہے اور مؤرخ یورپ میں مسیحیت کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کا ذکر تفصیل سے کرتے ہیں۔

دوسری طرف ہارون الرشید تاریخ کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے منصبِ خلافت پر فائز تھے۔ چنانچہ اندازے کے مطابق فرانکوں (جنہیں عرب وقائع نگار فرنجی لکھتے ہیں) اور عباسیوں کو ایک دوسرے کا دشمن ہونا چاہیے تھا، لیکن مؤرخین کے مطابق معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔

 مذہبی اختلافات کے باوجود شارلیمان اور ہارون الرشید میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ تھے ان کے دشمن۔ اندلس کی اموی سلطنت اور ایشیائے کوچک کی بازنطینی سلطنت سے دونوں ہی کو خطرہ رہتا تھا۔

کہاوت ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، چنانچہ حالات نے ہارون الرشید اور شارلیمان کو بھی گہرا دوست بنا دیا تھا۔

 عبدالرحمنٰ الداخل کے خلاف شارلیمان اور عباسیوں کا اتحاد

عباسیوں نے جب ایک بغاوت کے نتیجے میں خلافت پر قبضہ کیا تو شکست خوردہ خاندانِ امیہ میں سے ایک نوجوان عبدالرحمٰن نے فرار کی راہ سے اندلس پہنچ کر اپنی امارت قائم کر لی۔

لیکن نوجوان عبدالرحمٰن کے لیے اندلس میں بھی سکون کا کوئی گوشہ نہیں تھا۔ عباسی خلفا انہیں اپنی امارت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے، چنانچہ ان کے خلاف پے در پے سازشیں ہوتی رہتی تھیں۔

ان میں سے اہم ترین اور خطرناک سازش777عیسوی میں عمل میں آئی جب تین اندلسی امرا نے فرانس جا کر شارلیمان کو اندلس پر حملہ کی دعوت دی اور انہیں عباسی خلیفہ المہدی کی جانب سے مدد کا یقین دلا کر آمادہ بھی کر لیا۔

تاریخ دان ڈوزی کے مطابق ’یہ عبدالرحمٰن کے خلاف ہونے والی سازشوں میں سب سے خطرناک تھی۔

تین اندلسی سرداروں سلیمان حاکم بارسلونا، ابولاسود محمد اور حبیب فہری کو عبدالرحمٰن سے ایسی دشمنی تھی کہ انہوں نے شارلیمان بادشاہ فرانس سے ان کے خلاف مدد مانگنے کا قصد کر لیا، حالانکہ یہ بادشاہ جس کی فتوحات کی دھوم تمام یورپ میں مچی ہوئی تھی، اسلام کا جانی دشمن تھا۔‘

تاہم اسے عبدالرحمٰن کی خوش قسمتی سمجھنا چاہیے کہ ان کی جانب سے کسی کوشش کے بغیر ہی یہ بغاوت مذکورہ سرداران کی باہمی پھوٹ کے باعث ناکام ہو گئی۔

شارلیمان اپنی فوجیں لے کر اندلس پہنچے تو انہیں ان سرداروں سے کوئی خاطر خواہ مدد نہ ملی۔ الٹا پیچھے ان کی سلطنت پر سیکسن قوم نے حملہ کر دیا۔ چنانچہ شارلیمان کو افراتفری میں واپس گھر پلٹنا پڑا اور راستے میں ایک پہاڑی درے سے گزرتے ہوئے ’باسک‘ قوم کے جنگجوؤں نے حملہ کر کے ان کی فوج کا تیا پانچہ کر دیا۔

اس کے بعد شارلیمان نے دوبارہ خود اندلس کی جانب کوئی پیشقدمی نہ کی۔

ہارون الرشید اور بادشاہِ روم

جہاں ایک طرف اندلس کے اموی شارلیمان اور عباسیوں کے لیے گلے کی ہڈی بن چکے تھے وہیں دوسری طرف بازنطینی سلطنت سے بھی دونوں کی کشمکش جاری رہتی تھی۔

ایشیائے کوچک میں عباسی سلطنت کی حدود شہنشاہِ روم کی سرحد سے لگتی تھیں اور کئی متواتر جنگوں کے بعد عباسیوں نے انہیں خراج ادا کرنے پر پابند کر لیا تھا۔

تاہم 802عیسوی میں شاہ نسیفورس (Nicephorus) بازنطینی سلطنت کے حکمران بنے تو انہوں نے ناصرف ہارون الرشید کو خراج ادا کرنے سے انکار کردیا بلکہ پہلے سے ادا کردہ خراج کی واپسی کا بھی تقاضہ کیا۔ علامہ طبری کے بقول ہارون الرشید نے ان کے خط کا جواب اسی خط کی پشت پر لکھا جو کچھ یوں تھا،

’بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم۔ یہ خط امیر المومنین ہارون کی جانب سے روم کے کتے نسیفورس کو لکھا جاتا ہے۔ اے کافر زادے، میں نے تیرا خط پڑھا، اس کا جواب تو سنے گا نہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ والسلام‘

اس کے بعد ہارون الرشید بازنطینی شہروں پر حملہ آور ہوئے اور نسیفورس کو ایسی شکست دی کہ ہارون الرشید کی زندگی میں رومیوں نے دوبارہ عربوں سے نبردآزما ہونے کی ہمت نہ کی۔

سزا کی غرض سے نسیفورس کو بے عزت کرنے کے لیے ہارون الرشید نے بادشاہ اور ان کے اہلِ خانہ پر بھی خراج نافذ کر دیا۔ اگرچہ اس سے پہلے کی روایت کے مطابق بادشاہ اور ان کے اعیال اس سے مستثنیٰ ہوتے تھے۔

دوسری طرف شارلیمان کی بھی رومیوں کے ساتھ کشمکش جاری رہتی تھی۔ اور انہی حالات نے ہارون الرشید اور شارلیمان کو اتحادی بنا دیا تھا۔

ابو عباس ہاتھی اور پانی سے چلنے والی گھڑیاں

عباسیوں اور فرانکوں کے درمیان اس تعلق کی ابتدا ہارون الرشید کے دادا ابو جعفر المنصور کے عہد میں ہوئی تھی جب شارلیمان کے باپ پیپن (Pepin) نے قاصد بغداد کی طرف روانہ کیے تھے۔

مؤرخین کے مطابق یہ قاصد تین سال تک بغداد میں رہے اور شاہی مہمان نوازی کےساتھ ساتھ کئی قیمتی تحائف لے کر واپس ہوئے۔

اس کے بعد شارلیمان نے پہل کی اور ہارون الرشید کے زمانے میں کئی نایاب و بیش قیمت اشیا کے ساتھ قاصدوں کو ہارون الرشید کے دربار میں بھیجا۔

اس زمانے کے فرانسیسی وقائع نگاروں کے مطابق اس کےساتھ ساتھ شہنشاہ نے ہارون الرشید سے ایک ہاتھی کی فرمائش بھی کی تھی۔

تین سال تک بغداد میں رہنے کے بعد شاہی پیامبر اسحاق الیہودی خلیفہ ہارون کے بھیجے ہوئے قاصد کے ساتھ واپس لوٹے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیسا(Pisa) کی بندرگاہ پر ان کے اترنے کی خبر ملی تو شارلیمان نے خصوصی انتظامات کے لیے مزید قاصد روانہ کیے جو انہیں بندرگاہ سے دارالحکومت تک لے کر آئیں۔

اس کے علاوہ بادشاہ نے اپنے ذاتی سیکرٹری آئین ہارڈ (Eignhard) کو بھی روانہ کیا کہ وہ ہاتھی اور دیگر تحائف کی ترسیل کے لیے کشتیوں کا بندوبست کریں۔

20 جولائی 802 کو یہ قاصد آخر کار بادشاہ کے دربار میں پہنچ گئے۔ ان کے پاس کئی قیمتی تحائف کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھی اور پانی سے چلنے والی ایک عجیب و غریب گھڑی بھی تھی۔

یہ ٹائم پیس اس وقت کی انجینیئرنگ کا شاہکار سمجھا جاتا ہے اور اس نے یورپ میں بغداد کی علمی برتری کی دھاک بٹھا دی تھی۔

اسی زمانے کے ایک یوروپی مصنف نوتکیر کے مطابق، ’اسے دیکھنے والے تمام لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔‘

شاہی وقائع نگاروں نے اس گھڑی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’یہ گھڑی تکنیکی مہارت کا شاہکار ہے اور یہ آبی گھڑی کی طرح 12گھنٹوں کا وقت بتاتی ہے۔

’اس میں 12 کھڑکیاں بھی بنی ہوئی ہیں اور ہر گھنٹے بعد ایک کھڑکی میں سے گھڑ سوار باہر نکل کر گھنٹے کا اعلان کرتا ہے اور باہر آتے ہوئے پچھلی کھڑکی کو بند کر دیتا ہے۔‘

یورپی تحائف کے مقابلے میں ان عباسی تحائف کی جدت کو دیکھ کر اس زمانے کے بغداد کی سائنسی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ عباسی خلافت اس وقت 50 لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی جبکہ شارلیمان کی سلطنت اس کا فقط دسواں حصہ بھی نہ تھی۔

خلیفہ ہارون کے بھیجے ہوئے دوسرے تحفے یعنی ابو عباس ہاتھی کی اہمیت کا اندازہ بھی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ دس سال تک یہ دیو قامت جانور مختلف مہمات میں شارلیمان کے ساتھ رہا اور شاہی وقائع نگار جو بادشاہ کی اولاد کے مرنے کا بھی اکثر ذکر نہیں کرتے، اس کی وفات کا خصوصی ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ شاہی ریکارڈ کے مطابق:

’810 عیسوی میں جب شہنشاہ ڈنمارک کے حکمران کے خلاف مہم پر نکلے تو دریائے رائن کے کنارے یہ ہاتھی اچانک مر گیا۔‘

ان تفصیلات سے قطع نظر ان واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ ضرور بتاتا ہے کہ تاریخ میں ایک وسیع تر اور متحدہ اسلامی یا عیسائی سلطنت کا خواب فقط خواب ہی رہا اور مختلف ریاستوں کے مادی و سیاسی مفادات اس اتحاد کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بنتے رہے۔

چنانچہ اس پہلی سفارت کے بعد جب دوسری دفعہ شارلیمان نے قاصد روانہ کیے تو بغداد میں انارکی کا سماں تھا کیونکہ خلیفہ ہارون کی وفات کے بعد عباسی روایت کے مطابق تخت نشینی کے لیے جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔

جب تک مذکورہ سیاسی حالات برقرار رہے، عباسیوں اور فرانکوں کے تعلقات بھی خوشگوار رہے تآنکہ دونوں سلطنتیں وقت کی گرد میں گم ہو گئیں۔

تاہم ہارون الرشید اور شارلیمان کی دوستی کی یادگار ایک پینٹنگ کی شکل میں  آج بھی فرانس میں واقع نپولین کے مزار کے اندر آویزاں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ