ہندو بہنوں کو سرکاری تحویل میں دینے کا حکم

اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے، عدالت ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سندھ کے ضلع گھوٹکی کی دو بہنوں روینہ کماری مینگھواڑ اور رینا کماری مینگھواڑ کو سرکاری تحویل میں دارالامان بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے مبینہ شوہروں کی 9 اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی جن کے خلاف سندھ میں اغوا کا مقدمہ درج ہے ۔

 لڑکیوں کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ وہ نوعمر ہیں اور انہیں زبردستی مذہب تبدیلی اور مسلمان لڑکوں سے شادی کروانے کی غرض سے اغوا کیا گیا۔

منگل کی صبح روینہ عرف آسیہ اور رینہ عرف شازیہ اپنے مبینہ شوہروں صفدرعلی اور برکت علی کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں، جہاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزاروں نے زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اورانہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔

درخواست میں وزارت داخلہ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، آئی جی پولیس پنجاب، سندھ، اسلام آباد، پیمرا، قومی اسمبلی رکن رمیش کمار ونکوانی کو فریق بنایا گیا ہے۔

دوران سماعت درخواست گزاروں کے وکیل عمیر بلوچ ایڈوکیٹ نے اپیل کی کہ ان لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی موکلین نے قانون کے مطابق اسلام قبول کیا لیکن 20 مارچ کو ان کے بھائی نے گھوٹکی میں ان کے اغوا کا مقدمہ درج کروا دیا۔

عمیر بلوچ ایڈوکیٹ نے کہا: میڈیا میں دونوں بہنوں سے متعلق منفی پروپیگنڈا کیا گیا اور انہیں ڈر ہے کہ لڑکیوں کو کاری نہ کردیا جائے اس لیے عدالت ان کو سندھ نہ بھیجنے کا حکم دے۔

لڑکیوں کی عمر کے بارے میں چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ آسیہ (روینہ) 20 اور نادیہ (رینا) 18 سال کی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ وزارت داخلہ نے بھی واقعہ کی تحقيقات شروع کردی ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا: عدالت ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ اقلیتیں پاکستان میں مکمل آزاد اور محفوظ ہیں اور ان کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو بھی دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک دونوں بہنیں دارالامان میں رہیں گی اور ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے بغیر اسلام آباد سے باہر نہیں جائیں گی جبکہ ان کے شوہر اسلام آباد انتظامیہ کے مہمان ہوں گے۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں عمیر بلوچ ایڈوکیٹ نے کہا سندھ میں پولیس لڑکیوں کو ہراساں کر رہی تھی، وہ اپنے شوہروں کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں مگر پولیس ان کو گرفتار کرنا چاہتی تھی۔

وکیل کے مطابق، ’دونوں بہنیں بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہیں۔‘

اس موقع پر آسیہ نے کہا: ہم نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، ہمیں کسی نے زور زبردستی سے اسلام قبول نہیں کروایا۔

لڑکیوں کے اہل خانہ کے وکیل افتخار چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ لڑکیوں کا بھائی شمن داس لعل اور والدہ بھی اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔

شمن داس نے کہا: ’میری بہنوں کو گن پوائنٹ پر اغوا کیا گیا اور زبردستی مذہب تبدیل کرکے نکاح کرایا گیا۔ وہ دونوں کمسن ہیں۔ ہم عدالت سے انصاف چاہتے ہیں۔‘


تحریری حکم نامہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ دو بہنوں کے قبول اسلام نے سندھ میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے تنازعے کو جنم دیا۔

 عدالت نے دونوں لڑکیوں کو شہید بے نظیر بھٹو ویمن کرائسز سنٹر منتقل کرنے کی ہدائت کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کا طبی معائنہ بھی کروایا جائے۔

 مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو لڑکیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی۔

 مجسٹریٹ سے روزانہ کی بنیاد پر عدالت میں رپورٹ دیں گے۔

 عدالت نے شیریں مزاری، خاور ممتاز، ڈاکٹر مہدی حسن اور آئی اے رحمان کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ 


ہندو بہنوں کا ’اغوا اور زبردستی مذہب تبدیلی‘ — کیس کا پس منظر

20 مارچ کو ہندوؤں کے مذہبی تہوار ہولی کے دن ڈھرکی سے روینہ اور رینا مبینہ طور پر اپنے گھر سے غائب ہوگئی تھیں، بعد میں لڑکیوں کے والد ہری لعل نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹیوں کو اغوا کرکے زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔ 

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں دونوں بہنیں اسلام قبول کرتی نظر آئیں اور ایک مذہبی رہنما دونوں بہنوں کا نکاح دو مسلمان نوجوانوں سے کروا رہے تھے۔ 

پیر کو ضلع گھوٹکی کے شہر ڈھرکی میں بسنے والی ہندو برداری کے درجنوں افراد نے روینہ اور رینا کے مبینہ اغوا اور زبردستی مذہب تبدیلی کے خلاف احتجاج کیا اور دونوں بہنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں روینہ اور رینا کے والد پولیس سٹسشن کے باہر اپنی بیٹیوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ گھوٹکی میں لڑکیوں کے اہلِ خانہ کے احتجاج کی بھی ویڈیو سامنے  آئی۔

شمن لعل نے انڈپینڈنٹ اردو کو نادرا کے سرٹیفکیٹ دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی چھوٹی بیٹی رینا کی عمر 13 سال اور روینہ کی عمر 16 سال ہے۔  

یہ سرٹیفیکیٹ دونوں بہنوں کے مبینہ اغوا کے دو دن بعد یعنی 22 مارچ کو جاری کیے گئے جبکہ نکاح نامے میں دونوں بہنوں کو 18 سال سے زائد عمر کا دکھایا گیا۔

ماضی میں سندھ سے ہندو لڑکیوں کے اغوا اور زبردستی مذہب تبدیلی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ سماجی کارکن مکیش مینگھواڑ نے دعویٰ کیا کہ پچھلے 35 دنوں میں نو ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔ 

2016 میں مسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی نند کمار گوکلانی نے زبردستی مذہب تبدیلی کی روک تھام کے لیے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا جس کے تحت 18 سال سے کم عمر میں شادی غیر قانونی سمجھی جائے گی۔ 

یہ بل سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا مگر پھر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد اُس وقت کے گورنر سندھ  نے بل کی حتمی منظوری روک دی تھی۔ 

نند کمار گوکلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس بل کی کچھ شقوں میں ترمیم کرکے جلد ہی اسے سندھ اسمبلی میں دوبارہ پیش کیا جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی کھینل داس کوہستانی نے مطالبہ کیا ہے کہ بل نہ صرف سندھ اسمبلی سے منظور کرایا جائے، بلکہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں میں بھی لاگو کیا جائے۔ 

کوہستانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر یہ بل صرف سندھ میں منظور کروایا جائے تو اگر کوئی بھی کسی ہندو لڑکی کو اغوا کرکے پنجاب یا کسی اور صوبے میں لے جائے اور تو قانون نہ ہونے کی وجہ سے پچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔


قانونی نقطہ نظر

ماہر قانون اور سندھ ہائی کورٹ کے وکیل بیرسٹر حق نواز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسے کیسوں میں عمر معلوم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو نادرا کے شناختی کاغذات اور دوسرا ایک سائنسی طریقہ جس سے دانتوں اور ہڈیوں کے ٹیسٹ سے عمر کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔  

انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ میں ایک قانون کے تحت لڑکیوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی قانونی طور پر جائز نہیں۔ یہ قانون مسلمان اور دوسرے مذہب کی لڑکیوں پر بھی لاگو ہے، چاہے وہ کسی بھی شہر چلی جائیں، چونکہ وہ سندھ کی رہائشی ہیں لہذا ان کا کیس اسی قانون کے تحت سنا جائے گا۔ 

 

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان