برطانیہ: سکولوں میں ہم جنس پرستی سے متعلق مضامین پر مسلمان والدین کا احتجاج

ہم جنس پرستی سے متعلق مضامین کو سکولوں کے نصاب میں شامل کیے جانے برمنگھم کے سکولوں کے باہر مسلمان والدین کا احتجاج

گزشتہ روز  ہونے والے مظاہرے میں تقریباً 50 کے قریب افراد شامل تھے، جنہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ’ہمارے بچے، ہماری مرضی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ تصویر: پی اے

برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی سے متعلق مضامین کو سکولوں کے نصاب میں شامل کیے جانے کے حق میں ووٹنگ دیے جانے کے بعد برمنگھم کے ایک پرائمری سکول میں اس کے خلاف احتجاج کئی روز سے جاری ہے۔

اینڈرٹن پارک پرائمری سکول میں میگا فون تھامے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اساتذہ اُس وقت تک ہم جنس پرستی کے مضامین کو پڑھانا ترک کردیں جب تک اُن والدین کے ساتھ مشاورت کے ساتھ کوئی حل نہ تلاش کرلیا جائے، جو اس کے خلاف ہیں۔

مظاہرے میں تقریباً 50 کے قریب افراد شامل تھے، جنہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ’ہمارے بچے، ہماری مرضی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر کچھ بچے بھی مظاہرے میں شریک ہوئے۔

یہ مظاہرہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب بدھ کی شام 538 اراکین پارلیمنٹ نے رشتوں اور جنسی تعلیم (Relationship  and  sex  education) سے متعلق مضامین کو ستمبر 2020 سے انگلش سکولوں کے نصاب کا لازمی حصہ بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔

سکولوں کا یہ نصاب، جس میں قریباً دو عشروں بعد پہلی مرتبہ تبدیلی کی گئی ہے، اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ بچوں کو مختلف خاندانوں کے بارے میں تعلیم دی جائے، جن میں ہم جنس پرست والدین بھی شامل ہیں۔

محکمہ تعلیم کے مطابق اس کا خیال تھا کہ ہم جنس پرستی سے متعلق مواد سیکنڈری سکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے گا اور پرائمری سطح پر ایسا کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔

کچھ مسلمان والدین اینڈرٹن پارک کے باہر گزشتہ پیر سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے بچے ہم جنس پرستی جیسے مضامین پڑھانے کے حوالے سے بہت چھوٹے ہیں۔

مظاہرے میں شریک ایک شخص نے سکول پر ’تعلیم کے بجائے تبلیغ‘ کا الزام عائد کیا جبکہ مظاہرے کے منتظم نے مطالبہ کیا کہ سکول کی ہیڈ ٹیچر کی والدین سے ملاقات کروائی جائے۔

میگا فون تھامے اس مظاہرے کی سربراہی کرنے والے شکیل افسر نے کہا، ’سکول نے والدین سے کسی طرح کا رابطہ نہیں کیا، جن میں سے 98 فیصد مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔‘

اینڈرٹن پارک، برمنگھم کا دوسرا سکول ہے، جسے حالیہ دنوں میں مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس سے قبل پارک فیلڈ کمیونٹی سکول نے احتجاج کرنے والے والدین سے مشاورت کے بعد اپنا پروگرام ’نو آؤٹ سائیڈرز‘ معطل کردیا، جس میں بچوں کو کہانیوں کی کتابوں کے ذریعے ہم جنس پرست والدین کے حوالے سے پڑھایا جارہا تھا۔

برمنگم کے مزید پانچ دیگر سکولوں نے بھی اسی طرح کے اقدامات اٹھائے۔

اینڈرٹن پارک سکول میں ’نو آؤٹ سائیڈر‘ پروگرام نہیں پڑھایا جاتا، تاہم کچھ والدین کا کہنا ہے کہ انہیں سکول کی جانب سے ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ اقلیتوں کی تکریم کے حوالے سے اُس نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔

احتجاج کے دوران سکولوں کی حمایت کرنے والی مقامی لیبر کونسلر کیری جینکنز کا کہنا ہے کہ سکولوں نے کچھ غلط نہیں کیا، وہ برابری کے قانون کے تحت اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں۔

سکول کی ہیڈ ٹیچر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ان کے دروازے تمام والدین کے لیے کھلے ہیں۔ انہوں نے 40 سے زائد والدین سے ملاقات کرکے ان سے بات چیت کی ہے۔‘

کیری جینکنز کا کہنا تھا کہ مظاہرین کمیونٹی میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے، ’اس عمر میں بچوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ہنگامہ کس وجہ سے ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ بچوں کو بھی اس احتجاج میں گھسیٹا گیا۔‘

اینڈرٹن پارک سکول کی ہیڈ ٹیچر سارا ہی وِٹ کلارکسن نے رواں ہفتے کے آغاز میں سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے ایجوکیشن سیکریٹری ڈیمیان ہِنڈز کو لکھے گئے خط میں اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔

رواں برس کے آغاز میں، اس حوالے سے ایک قومی پٹیشن کا آغاز ہوا تھا کہ والدین کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلقات اور جنسی تعلیم کے مضامین سے دور رکھ سکیں، اس پٹیشن پر 11 ہزار پانچ سو افراد نے دستخط کیے تھے۔

حکومتی اصلاحات کے تحت والدین صرف اپنے 15 سال کی عمر تک بچوں کو جنسی تعلیم نہ دلوانے کے فیصلے کا حق رکھتے ہیں، تاہم انہیں اس بات کوئی اختیار نہیں کہ وہ پرائمری سکولوں میں تعلقات سے متعلق کلاسوں میں اپنے بچوں کو نہ بیٹھنے دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین