کوئٹہ میں خود کش حملے کے دو روز بعد بھی ہزارہ برادری کا دھرنا جاری

احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس پر ہزارہ اکثریتی علاقے ہزارہ ٹاؤن کے رہائشیوں جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں نے دے رکھا۔

ہزارہ برادری کے افراد  گذشتہ دو روز سے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں

بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں گذشتہ روز ہونے والے خود کش حملے کے بعد فضا سوگ وار ہے اور ہزارہ برداری کے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین دو روز سے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

یہ احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس پر ہزارہ اکثریتی علاقے ہزارہ ٹاؤن کے رہائشیوں جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں نے دے رکھا۔

جمعے کی صبح کوئٹہ کے ہزار گنجی کی سبزی اور فروٹ منڈی میں ایک خود کش دھماکہ ہوا تھا جس میں کل 20 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں دس افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ 

دھرنے کی قیادت کرنے والے طاہر ہزارہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہر بار حکومت ہمیں تسلیاں دیتی ہے۔ 

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طاہر ہزارہ نے بتایا کہ ’ہم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہمارا قصور کیا ہے ہمیں کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ہم تمام دروازوں پر دستک دے چکے ہیں اور مایوس ہوچکے ہیں ہماری سننے والا کوئی نہیں۔‘

دھرنے میں شریک انسانی حقوق کی کارکن اور ماہر قانون جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے خلاف ہزارہ کمیونٹی کے بوڑھے جوان اور خواتین اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں گو کہ انہیں کسی سے انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ’ہزارہ برادری نے اتنے حادثات دیکھے ہیں کہ اب ہم تھک چکے ہیں کس سے فریاد کریں کہ ہمیں بھی انسانی حقوق دیے جائیں۔‘

یاد رہے کہ اس واقعے کے بعد صوبائی وزرا کے علاوہ خود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے متاثرین سے اظہار ہمدردی کے لیے ہزارہ ٹاؤن کی امام بارگاہ کا دورہ کیا تھا اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو یہ باور کرایا کہ حکومت ایسے واقعات کا تدارک کرے گی۔ 

وزیراعلیٰ جام کمال کے بقول ’دہشت گرد کسی ایک قوم قبیلے کے نہیں ہم سب کے مشترکہ دشمن ہیں۔‘

بلوچستان میں گذشتہ 20 سالوں سے فرقہ وارانہ واقعات میں اب تک ہزارہ برادری کے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات سے خوفزدہ ہوکر سینکڑوں لوگوں نے ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک کا رخ بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان