سردیوں کے آتے ہی سندھ میں مقامی میلوں کا آغاز ہوجاتا ہے جو لوگوں کی تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان میلوں میں مقامی طور پر تیار کردہ ناریل کی مٹھائی کو لازم وملزوم سمجھا جاتا ہے، جسے سندھ کی سوغات بھی کہا جاتا ہے۔
اس سوغات کو ’میاں جی مٹھائی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ صوبائی انتظامیہ کے مطابق سندھ میں سالانہ پچاس سے زائد میلوں کا انعقاد ہوتا ہے جہاں یہ مٹھائی فروخت ہوتی ہے۔ صدیوں سے ان میلوں میں فروخت ہونے والی کھوپرے کی مٹھائی کے بغیر یہ میلے ادھورے ہیں۔
لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے سکندر برڑو گذشتہ 25 سال سے میلوں میں ناریل کی مٹھائی بنا رہے ہیں۔
بدین میں ایسے ہی ایک میلے میں آئے سکندر کا کہنا تھا کہ وہ سمن سرکار، بھٹ شاہ اور سیہون سمیت دیگر میلوں میں یہ مٹھائی بناتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’اس مٹھائی کے بغیر ان میلوں کا انعقاد ہی ممکن نہیں۔ اس مٹھائی کا بننا مقامی روزگار کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور اس مٹھائی کو بنانے میں مقامی مزدوروں کا سہارا لیتے ہیں۔‘
یہ مٹھائی ایک سفوف سے بنتی ہے جو درآمد کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں کراچی سے یہ سفوف مختلف علاقوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اس مٹھائی کو بنانے میں سفوف کے ساتھ چینی اور پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، اور پھر کشمش اور کھوپرا ڈالا جاتا ہے۔
سکندر کا کہنا تھا مکہ اس مٹھائی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ منوں یا کلو گرام کی بجائے بوریوں کے برابر تیار کی جاتی ہے، اور اسی حساب سے اس کی فروخت بھی ہوتی ہے۔
سندھ میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’میلے کی مٹھائی باپ بھی کھائے بیٹا بھی کھائے۔‘
سکندر نے بتایا کہ اس مٹھائی کو امیر غریب سب کھاتے ہیں۔ اسی طرح اس کی اعلیٰ کوالٹی سمیت اوسط کوالٹی بھی فروخت کے لیے موجود ہوتی ہے۔
یہ مٹھائی دو سے تین سو روپے فی کلو گرام تک فروخت ہوتی ہے۔
’میلے میں آنے والے افراد واپسی پر اس کو تحفے کے طور پر لے جاتے ہیں کیوں کہ یہ سندھ کی سوغات ہے۔‘