صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے ایک گاؤں میں منعقد ہونے والے مقامی جرگے نے اپنے ایک فیصلے میں اس علاقے میں ہر قسم کی موسیقی پر پابندی عائد کر دی ہے، تاہم ضلعی انتظامیہ اور تحصیل سلارزئی کے پولیس حکام نے اس پابندی سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
علاقہ مکینوں کی جانب سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے منعقد ہونے والے جرگے میں فیصلہ کیا گیا کہ علاقے میں خوشی کی تقریبات میں موسیقی پر خرچ ہونے والی رقم کو مساجد کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مقامی افراد کے مطابق ابتدائی طور پر اس خبر کو باجوڑ کی سیاسی شخصیات سمیت دیگر مقامی افراد نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیا تھا، لیکن بعد ازاں اس حوالے سے نہ صرف مکمل خاموشی اختیار کی گئی بلکہ سیاست دانوں نے اس اعلان کو اپنے اکاؤنٹس سے ہٹا بھی دیا۔
ڈپٹی کمشنر باجوڑ افتخار عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم اس کی انکوائری کرکے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے، کیونکہ کسی شہری پر اپنی مرضی مسلط کرنا اور ان پر جبر کرنا آئین پاکستان اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔‘
دوسری جانب تھانہ سلارزئی کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) سعید الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ’پولیس متعلقہ علاقے میں معلومات کرکے بہت جلد میڈیا کو اس سے آگاہ کر دے گی۔‘
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مقامی رپورٹر بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مصدقہ اطلاعات کے مطابق فیصلے کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ باجوڑ کے گاؤں ’عالمانو کلے‘ میں ایک گھر میں فوتگی اور دوسرے گھر میں شادی کی تقریب چل رہی تھیں، جس پراہلیان علاقہ نے تنقید کرتے ہوئے ایک جرگے کے ذریعے ہر قسم کی موسیقی پر پابندی لگا دی۔‘
ان کے مطابق: ’جرگے میں فیصلہ ہوا کہ گاؤں میں آئندہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر کسی نے گانا بجانا، ڈانس اور پارٹی وغیرہ کی تو پیش امام صاحب نکاح میں شرکت نہیں کریں گے اور ایسے گھر والوں کی میت کے کفن دفن میں پورا گاؤں شرکت نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کے گھر والوں کے ساتھ کوئی تعلقات رکھے گا، جس کو اکثریت نے قبول کر لیا۔‘
بلال یاسر نے مزید بتایا کہ ’یہ واقعہ ایک ایسے گاؤں میں پیش آیا ہے، جس کا نام عالمانو کلے ہے، تاہم اس کا پرانا نام ’موسیقاروں کا گاؤں‘ تھا، بعدازاں اس علاقے میں مولویوں کی اکثریت کے بعد اس کا نام تبدیل کردیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگرچہ یہ خبر میڈیا میں خاص اہمیت کی حامل تصور کی جا رہی ہے، لیکن مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک عام سی بات ہے۔‘
دوسری جانب باجوڑ کے بعض مکینوں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے موسیقی پر پابندی کے اثرات سرحد کے اس پار بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری ثقافت اور کتاب ’دی میلیٹنٹ ڈسکورس‘ کے مصنف خادم حسین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کا اثر 40 سال پہلے شروع ہوا اور پھر انتہا پسند، پشتونوں کے علاقوں میں خصوصاً اور پاکستان میں عموماً سرایت کرکے موسیقی، ثقافت اور ادب کے خلاف ہوگئے، ورنہ 70 کی دہائی سے قبل پشتون معاشرے میں کوئی شخص یا گروہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘
خادم حسین نے مزید کہا کہ ’موسیقی اور پشتونوں کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے، جو نہ صرف خوشی کے موقعوں بلکہ عام طرز زندگی میں بھی اس کے ساتھ کافی قریب رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اور افغانستان میں ایک مرتبہ پھر انتہاپسند گروہ کو طاقت ملی ہے اور وہ درپردہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ہماری ثقافت کو آہستہ آہستہ ختم کررہے ہیں۔‘
دوسری جانب خیبر پختونخوا میں فنکاروں کی صوبائی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ کے صدر اور موسیقی میں پی ایچ ڈی سکالر راشد احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پشتون معاشرے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ بڑی تعداد کتاب پڑھنے سے رغبت نہیں رکھتی، تاہم اگر ان کے سامنے کوئی سبق آموز بات کسی گیت یا داستان کی شکل میں سنائی جائے تو وہ اس کو غور سے سنتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس بات کا ثبوت پشتون موسیقی میں مختلف اقسام جیسے ٹپہ، چاربیتہ، رباعی، بدلہ، نیمکئی اور سندرہ کی موجودگی ہے۔ جب ٹی وی اور ریڈیو نہیں تھا تو موسیقی حجروں میں پائی جاتی تھی۔ اہل ذوق موسیقی کے مجلسوں سے کافی محظوظ ہوتے تھے۔ اس کی ایک اہمیت یہ تھی کہ ان محفلوں میں بعض شعرا اپنے علمی کلاموں سے معاشرے کی اصلاح کرتے تھے اور لوگ ان سے علم وادب سیکھتے تھے۔‘
راشد خان نے کہا کہ ’موسیقی ثقافت کا حصہ ہے اور یہ دنیا کے تمام قوموں کے باذوق ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔‘
ادیب اور تجزیہ نگار خادم حسین کے مطابق باجوڑ میں جرگے کا فیصلہ نہ صرف اخلاقیات اور پشتون ثقافت کے منافی ہے بلکہ انہوں نے کہا کہ ’یہ آئین و قانون اور اظہار رائے کی بنیادی آزادی کے اصولوں کے خلاف بھی ہے۔‘