کیسے ’گمشدہ‘ سیارہ نائن، لڑکیوں کے لیے دنیا بدل سکتا ہے

میں خاص طور پر نویں سے متاثر ہوں۔ ہمارے نظام شمسی میں اس فرضی ’گمشدہ‘ سیارے کا خیال کچھ عرصے سے پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ ابھی تک اسرار کے پردے میں ہے۔

یہ ایک فن کار کے خیال پر مبنی تصویر ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ سیارہ نائن کیسا دکھ سکتا ہے (کالٹیک/آر ہرٹ) 

گذشتہ ماہ خلا کے بارے میں بڑی بڑی خبریں زیادہ تعداد میں اس انداز میں سامنے آئیں جیسے شہاب ثاقب کی بارش ہوتی ہے۔

فروری کا آغاز خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کی جیمز ویب خلائی دوربین سے لی گئی زمین کے قریب واقع ایک درجن سے زیادہ کہکشاؤں کی کچھ غیر معمولی نئی تصاویر کے ساتھ ہوا۔ یہ تصاویر ساخت اور تشکیل کی غیرمعمولی تفصیلات سامنے لائیں۔

حال ہی میں امریکی خلائی جہاز 50 سال بعد پہلی مرتبہ چاند کی سطح پر اترا۔ یہ تجارتی بنیادوں پر کی جانے والی پہلی لینڈنگ تھی۔

2024  میں زمین پر ہم  ڈی ڈبلیو نامی بس جتنے سیارچے کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ یہ سیارچہ ہم سے ایک لاکھ 40 میل کے فاصلے پر پہنچ گیا یعنی چاند سے بھی زیادہ قریب۔ اس دوران سائنس دانوں نے پہلی بار کسی سیارچے پر پانی کے مالیکیولز دریافت کیے۔

یہ دریافت اہم ہے کیوں کہ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ زمین ’نیلا سیارہ‘ کیوں بنی۔

ہر خبر مجھے ایک بار پھر 13 سال کی عمر میں لے گئی۔ مجھے گھر پر بنائی گئی دوربین کے عدسے (لینز) کو رگڑ کر صاف کرنا اور اسے چمکانہ یاد ہے۔ پس منظر میں سٹار ٹریک دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ دور تھا جس میں جوش، تجسس اور سوالات تھے۔

لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک خبر نے مجھے ایک بار پھر سائنس سے محبت کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں بہت سے امکانات اور گتھیوں کے سلجھنے کے معاملے میں پرجوش ہوں۔ مجھے امید ہے کہ نئے خلائی محققین کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

ہمارے نظام شمسی کے نویں سیارے کے ممکنہ مقام کی دریافت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ابھی بہت کچھ تلاش کرنا باقی ہے۔

میں خاص طور پر نویں سے متاثر ہوں۔ ہمارے نظام شمسی میں اس فرضی ’گمشدہ‘ سیارے کا خیال کچھ عرصے سے پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ ابھی تک اسرار کے پردے میں ہے۔

اس کے باوجود اب ہمارے پاس ایسے سیاروں کا سراغ لگانے کی صلاحیت موجود ہے جو دور دراز ستاروں کے گرد گردش کر رہے ہیں جو ہم کھربوں کلومیٹر کی دوری پر رات کے وقت آسمان میں دیکھتے ہیں۔ پھر ہم اپنے نظام شمسی میں موجود سیارے کو کیسے نہ دیکھ سکے۔

ہمارا خیال ہے کہ جس انداز میں بیرونی نظام شمسی میں موجود اجرام فلکی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اس صورت حال کے سبب نواں ان سے باہر موجود ہو سکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ان اجرام فلکی پر ناقابل ادراک کشش ثقل اثرانداز ہو رہی ہے۔ ان بیرونی نظام شمسی کے اجسام کی حرکت کو دیکھنے سے ہم اس نامعلوم سیارے کی کمیت اور ممکنہ مدار کا ادراک کرسکتے ہیں۔ اس کی تخمینہ کمیت زمین کی کمیت سے ایک سے 10 گنا کے درمیان ہے۔

اگر یہ سیارہ موجود ہے تو یہ سورج کے گرد ایک ایسے مدار میں گھوم رہا ہے جو دوسرے سیاروں سے بالکل مختلف ہے۔

ہمارے نظام شمسی میں جن آٹھ سیاروں کو ہم جانتے اور ان پیار کرتے ہیں وہ ایسے مدار میں گھومتے ہیں جو دائرے سے خاصا ملتا جلتا ہے۔ تاہم نویں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا مدار بہت ہی بیضوی ہے۔ انڈے کی شکل کے دائرے کی طرح۔

اس کے مدار کے سب سے دور حصے میں یہ زمین کے مقابلے میں سورج سے تقریباً چار سو سے پانچ سو گنا زیادہ یعنی تقریباً 60 ارب کلومیٹر دور ہونے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ زمین کو سورج کے گرد چکر لگانے میں ایک سال لگتا ہے۔ نویں سیارے کو 20 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

ان سب باتوں کا مطلب یہ ہے کہ اس کا پتہ لگانا مشکل ہوگا۔ پھر بھی اگر اس کا وجود ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اس کے قریب ہو رہے ہیں۔

یہی وہ چیز ہے جو مجھے سائنس اور مستقبل کے بارے میں پرجوش بناتی ہے۔ ہم نظام شمسی کے کسی اور سیارے کی طرح کسی غیر معمولی مفروضے پر غور اور اس ضمن میں دوسروں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں کہ آیا یہ سچ ہے۔

دریافتیں اور ایجادات اکثر صورت حال کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے یا صورت حال کو جوں کا توں رہنے دینے کی سوچ کو ترک کر دینے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اگر ہم مختلف شعبوں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کر لیں تو امکانات کی ایک کائنات کھل جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے ہر ایک کو ستاروں تک پہنچنے کے لیے کہنا اپنا مشن بنا لیا ہے خواہ ان کے ستارے کچھ بھی ہوں۔

خاص طور پر وہ لوگ جن کا خیال یہ نہ ہو سائنس ان کے لیے ہے۔ وسیع تجربے کے حامل لوگوں کو شامل کرتے ہوئے ہم ان امکانات کو دیکھتے ہیں جنہیں ممکنہ طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔

یہ تصور کرنا آسان ہے کہ اب تک تمام بڑے سوالات کے جوابات مل چکے ہیں لیکن نویں سیارے جیسی دریافتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم ابھی شروعات کر رہے ہیں۔ ان تمام حیرت انگیز دریافتوں کا تصور کریں جو مقامی طور پر اور اس سے پرے ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔

چند ہفتے پہلے مجھے پہلی بار آئزک نیوٹن کے بچپن کے گھر جانے کا موقع ملا۔ یہ دورہ اس نیشنل ٹرسٹ کے ٹائم پلس سپیس ایوارڈ کے لیے تھا جو نوجوانوں کے لیے ان کے مفروضوں کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کرنے کی خاطر ایک نیا لانچ پیڈ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نیوٹن کو معمر اور سفید بالوں والے روائتی ’ذہین شخص‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم حقیقت مختلف ہے۔ جوانی میں نیوٹن کوئی ذہین طالب علم نہیں تھے اور نہ ہی وہ کوئی ایسے شخص تھے جس کے بارے میں آپ نے سوچا ہوگا کہ وہ کائنات کے بارے میں ہماری تفہیم میں انقلاب برپا کرے گا۔

وہ شروع سے ہی روائتی ’ذہین‘ شخصیت کے سانچے میں فٹ نہیں تھے۔ اپنے ابتدائی برسوں میں وہ شاید کسی ایسے شخص کی طرح نہیں لگتے تھے جو کائنات کے بارے میں ہماری تفہیم میں تبدیلی لائے گا۔

ان کے پاس جو کچھ تھا وہ ایک مسلسل تجسس اور متضاد سوچ تھی۔ انہیں اس وضاحت سے اس انداز میں اتفاق نہیں کرنا تھا کہ ’جس طرح سے وہ ہے۔‘ جب ان کے پاس ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے وقت اور گنجائش تھے جن کے بارے میں وہ متجسس تھے تو انہوں نے ایسی دریافتیں کیں کہ اب ان کے اثرات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں ہم نہیں جانتے تھے کہ چیزیں زمین پر کیوں گرتی ہیں یا روشنی بہت سے رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بڑے، مشکل سوالات، چھوٹے چھوٹے اور بڑے نظریات پر کام کرنے میں مدد ملے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹائم پلس سپیس ایوارڈ کے حصے کے طور پر میرا سوال ہے کہ ’سائنس سب کے لیے زیادہ قابل رسائی اور متعلقہ کیسے ہوسکتی ہے؟‘

ہم نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی مدد کرنے میں بڑی پیشرفت کی ہے جس سے انہیں جرات مندانہ طور پر وہاں جانے میں مدد ملی ہے جہاں اس سے پہلے کوئی خاتون نہیں پہنچی تھی۔

لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ تنوع کے دیگر شعبوں کو آگے بڑھانا باقی ہے۔ ہمیں سائنس کو ہر ایک کے لیے قابل رسائی بنانے کی ضرورت ہے ورنہ ہم مستقبل کے نیوٹن، جدت طراز، دریافتیں کرنے والے اور سائنس دانوں کی اگلی نسل نہیں بن سکتے۔

نوے کی دہائی کے وسط اور 2010 کے آغاز میں پیدا ہونے والے لوگ پہلے کی کسی بھی نسل کے مقابلے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد محسوس کرتے ہیں لیکن انہیں اس کے لیے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ کوئی بھی نوجوان یا جوان جان لے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق بڑے خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے۔

کون جانتا ہے کہ وہاں کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر میگی ایڈرن پوکوک برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام ’دا سکائی ایٹ نائٹ‘ کی شریک میزبان اور نیشنل ٹرسٹ کے ٹائم پلس سپیس ایوارڈ کی جج ہیں۔ دوسرے ججوں میں ڈیوڈ اولوسوگا، ٹیشن ہیڈن سمتھ اور میگن میک کیوبن شامل ہیں۔ 16 سے 25 سال کی عمر تک کے چار افراد کو وقت اور مقام کی شکل میں پانچ ہزار پاؤنڈ کا پیکیج دیا جائے گا تاکہ وہ پینل کی طرف سے دیے گئے بڑے سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر