سری نگر کی جامع مسجد میں مین سٹریم رہنما

اگر جامع مسجد کے منبر سے بھی ووٹ ڈالنے کی آوازیں ابھریں اور یہ مین سٹریم کا مسکن بن گئی تو سمجھ لینا چاہیے کہ بی جے پی نے آزادی کا بیانیہ دفنا دیا۔

چھ مئی 2024 کو سری نگر میں جامع مسجد کے قریب ایک انتخابی مہم کے دوران سکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

سری نگر کے پرانے علاقے نوہٹہ کی تاریخی جامع مسجد اس وقت پھر سرخیوں میں رہی جب جموں و کشمیر کی قومی دھارے سے وابستہ سیاسی جماعت ’اپنی پارٹی‘ کے سربراہ سید الطاف بخاری نے مسجد جا کر نماز پڑھی جو اکثر و بیشتر آزادی پسند رہنماؤں کا مضبوط گڑھ رہی ہے۔

نوہٹہ کو مسلح تحریک کے دوران کشمیر کی غزہ پٹی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے جہاں انڈیا مخالف احتجاجی جلسے معمول ہوا کرتے تھے۔

سلطان قطب الدین کی چودہویں صدی میں تعمیر شدہ جامع مسجد مختلف ادوار میں مزاحمت کی ایک بڑی علامت رہی ہے اور 1947 کے بٹوارے کے بعد انڈیا نواز جماعتیں اس علاقے اور مسجد سے پرے رہے۔

جب سے پی ڈی پی کو توڑ کر سیاسی جماعت ’اپنی پارٹی‘ معرض وجود میں آئی ہے، اس وقت سے اس کے بارے میں اکثر یہ افواہیں چلتی رہی ہیں کہ وہ انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم ہے۔

 موجودہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کے بغیر دوسری تمام جماعتوں بالخصوص اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس اور ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کی حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بی جے پی نے کشمیر کی تین نشستوں پر کوئی نمائندہ کھڑا نہیں کیا جس کے بارے میں تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ وہ مسلم اکثریتی علاقے میں مسلم امیدواروں کو کھڑا کر کے بقیہ انڈیا میں جو مسلم مخالف انتخابی مہم چلا رہی ہے، اس سے ہندوتوا ووٹروں میں تضاد پیدا ہو سکتا تھا۔

وزیراعظم مودی کی انتخابی مہم آج کل صرف مسلم مخالف بیانات پر منحصر ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی کمیشن میں شکایات بھی درج کروائیں البتہ کمیشن پر جانبدار کردار ادا کرنے کا الزام عائد ہے۔

کشمیر میں درگاہ حضرت بل کی زیارت شریف انڈیا نواز سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کا ہمیشہ مرکز رہی ہے جہاں سے اس کے بانی رہنما شیخ عبداللہ نے اپنی سیاسی تحریک کی آبیاری کی جبکہ جامع مسجد انڈیا، مخالف رہنما مولوی یوسف شاہ کے بعد ان کے جانشین کا مضبوط گڑھ تصور کی جاتی رہی ہے۔

جہاں یہ مسجد سکھ دور، ڈوگرہ دور اور پھر مسلح تحریک میں کئی مرتبہ مقفل رہی وہیں پانچ اگست 2019 کے بعد چار برس تک اس مسجد پر تالے چڑھائے گئے اور میر واعظ مولوی عمر فاروق کی مسلسل نظر بندی کے دوران گذشتہ برس ستمبر تک مسجد میں جمعے کی نماز ادا نہیں کرنے دی گئی۔

مشرقِ وسطیٰ میں غزہ پر اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاج کے پیش نظر مسجد کو پھر بند کردیا گیا تھا اور بعض میڈیا رپوٹوں کے مطابق سرکاری وقف بورڈ نے بیشتر مساجد کے اماموں کو غزہ پر احتجاج کرنے کے حوالے سے تنبیہ بھی کر دی تھی۔

اعتدال پسند حریت دھڑے کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے چار برس نظر بندی سے رہائی کے بعد پہلی بار جب جامع مسجد میں حاضری دے کر جمعے کا خطبہ پڑھا تو وہ جذبات میں بہہ کر آبدیدہ ہوگئے۔

انہوں نے مسجد کو نمازیوں کے لیے بند رکھنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی امور میں سرکاری مداخلت قرار دیا۔ اب جب سے اپنی پارٹی کے رہنما الطاف بخاری نے جامع مسجد میں جا کر نماز پڑھی ہے عوامی حلقوں میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں۔

ڈاؤن ٹاؤن کے ایک سماجی کارکن عبدالغفار پوچھتے ہیں کہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ مین سٹریم سے وابستہ رہنما جامع مسجد میں نماز پڑھنے گئے یا دلی سرکار نے ان کے ذریعے یہ پیغام دینا تھا کہ آزادی کی تحریک کو اب بالکل دفنا دیا گیا ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس اقدام میں میر واعظ کشمیر کا کوئی عمل دخل ہے یا انہیں بھی ہماری طرح اچنبھا ہوا ہے۔

حال ہی میں میر واعظ فاروق سے منسوب ایک خبر میڈیا میں آئی کہ انہوں نے کہا اس بار لوگ ووٹ ڈال سکتے ہیں کیونکہ انتخابی بائیکاٹ کی کوئی کال نہیں ہے، جیسا کہ ماضی میں حریت پسند اکثر انتخابی بائیکاٹ کی کال دیتے آئے ہیں۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چند آزادی پسند رہنماؤں نے حالات سے سمجھوتہ کرکے مین سٹریم میں شمولیت اختیار کی ہے، ہوسکتا ہے کہ میر واعظ بھی ایسا راستہ اپنانے پر تیار ہوجائیں، جس کا عندیہ آنے والے اسمبلی انتخابات کے وقت مل سکتا ہے۔

میر واعظ کا اگرچہ ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا البتہ ماضی میں ان کے مرحوم والد میر واعظ فاروق نے انڈیا کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو ڈاؤن ٹاؤن میں اپنے گھر بلا کر میزبانی کی، جن میں سابق وزیراعظم مرارجی ڈیسائی بھی شامل ہیں۔ کشمیری خواتین نے اس وقت ان کے استقبال میں ایک روایتی نغمہ گا کر انہیں پاکستان کا غازی قرار دیا تھا۔

سبز دستارس خدا چھوئے راضی

پاکستانک غازی آو۔۔۔۔

(سبز پگڑی پہننے والے پر اللہ مہربان ہو

پاکستان کا غازی وارد کشمیر ہوا ہے)

یہی نغمہ کشمیری خواتین نے 1944 میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے دورہ سری نگر کے دوران گنگنایا تھا۔

جموں وکشمیر میں اس وقت رائے عامہ کو بہلانے کے لیے پارلیمانی انتخابات کے دوران کئی بیانیے سامنے آ رہے ہیں۔

نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ووٹروں کو مائل کر رہی ہے کہ یہ ووٹ بی جے پی کی 2019 کے اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف بطور احتجاج استعمال کرنا ہے۔

اپنی پارٹی، پیپلز پارٹی اور دوسری مقامی سیاسی جماعتیں یہ ایجنڈا لے کرچل رہی ہیں کہ آرٹیکل 370 تاریخ بن چکا ہے۔ انڈیا کی دوسری ریاستوں کی طرح خطے کی ترقی اور روزگار فراہم کرنا ان کی اہم ترجیہات ہوں گی۔

 بی جے پی کی سرکاری مشینری اس مشن پر گامزن ہے کہ ایک تو عوام کی بھاری اکثریت کو ووٹ ڈالنے پر مائل کیا جائے تاکہ دنیا اور اندرون ملک یہ پیغام دیا جائے کہ جموں و کشمیر کے عوام تحریک اور خصوصی پوزیشن کو بھول کر قومی دھارے میں شامل ہوگئے ہیں، جو صرف آرٹیکل 370 کے بعد ممکن ہوسکا ہے۔

دوسرا یہ کہ دو سیاسی خاندانوں کو نئے کشمیر کے منظر نامے سے ہٹا کر نئی لیڈرشپ کو متعارف کروایا جاسکے۔ آزادی پسند گروہ پہلے ہی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ اگر وہ ووٹ دیں گے تو کس کے بیانیے پر لبیک کہیں گے؟

اگر جامع مسجد کے منبر سے بھی ووٹ ڈالنے کی آوازیں ابھریں اور یہ مین سٹریم کا مسکن بن گئی تو سمجھ لینا چاہیے کہ بی جے پی نے نہ صرف آزادی کا بیانیہ دفنا دیا بلکہ اندرونی خودمختاری واپس حاصل کرنے کا نعرہ بھی زمین بوس کر دیا ہے اور جموں وکشمیر کو انڈیا میں مکمل طور پر ضم کرنے میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ