صحافی متین حیدر کے بھائی کے مبینہ اغوا کا معمہ حل نہ ہو سکا

پاکستانی صحافی متین حیدر کے بھائی کا دو روز قبل راولپنڈی سے مبینہ طور پر اغوا ہونے کا معمہ تاحال حل نہ ہو سکا، گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی نے بھی انتظامیہ سے اس حوالے سے اقدامات کا مطالبہ کیا۔

پولیس اہلکار 25 جون 2020 کو اسلام آباد میں گاڑیوں کی نگرانی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی صحافی متین حیدر کے بھائی کا دو روز قبل راولپنڈی سے مبینہ طور پر اغوا ہونے کا معمہ تاحال حل نہ ہو سکا، گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی نے بھی انتظامیہ سے اس حوالے سے اقدامات کا مطالبہ کیا۔

صحافی متین حیدر نے 24 اکتوبر 2024 کو ایکس پر اپنی پوسٹ کے ذریعے بتایا تھا کہ ان کے ’چھوٹے بھائی پروفیسر عارفین حیدر کو بدھ کی صبح راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اغوا کر لیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عارفین ایک پر امن انسان ہیں اور کسی سیاسی یا مذہبی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔‘

انہوں نے پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ان کی تلاش میں مدد کی درخواست بھی کی۔

متین حیدر کی اس ٹویٹ کے بعد گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران رکن اسمبلی طارق فضل چوہدری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’سینیئر صحافی متین حیدر کے بھائی پروفیسرسید عارفین حیدر کے بھائی کو کالج جاتے ہوئے اغوا کیا گیا۔

 ’ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ وہ کس کی تحویل میں ہیں، ایک پرچہ نامعلوم افراد کے خلاف پنڈی میں درج کیا گیا ہے۔‘

طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ’صحافیوں کا مطالبہ ہے اور ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ اس معاملے کے  بارے میں آگاہ کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رکن قومی اسمبلی اعجاز جاکھرانی نے بھی ایوان میں اس حوالے سے بات چیت کی۔

ان کا کہنا تھا: ’متین حیدرایک انتہائی پیشہ ور صحافی ہیں جن کی تعریف خود محترمہ بے نظیر بھٹو کرتی تھیں، پروفیسرعارفین حیدر شریف فیملی سے ہیں اور ایک ٹیچر ہیں، اس حوالے سے فی الفور اقدامات اٹھائے جانے چاہییں۔‘

جس کے بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے اس معاملے پر ہدایات دینے کی یقین دہانی کروائی۔

صحافی متین حیدر کی اس پوسٹ کے بعد ایکس پر صارفین نے بھی اس معاملے کو جلد سے جلد حل کروانے پر زور دیا۔

صحافی سحر بلوچ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا: ’یہ سن کر واقعی افسوس ہوا۔ میں امید کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ وہ جلد گھر واپس آ جائیں۔‘

نادر بلوچ نامی صارف کا کہنا تھا: ’افسوس ناک صورت حال، پنجاب پولیس کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔‘

ایک اور صارف ہوپ ناٹ آؤٹ کا کہنا تھا کہ ’پڑھے لکھے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے تمام وسائل استعمال کرکے نکلیں اس ملک سے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے بات کرنے کے لیے صحافی متین حیدر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم انہوں نے ایکس پر جعمے کو اس بارے میں لوگوں کی تشویش پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان