مشتری ہوشیار باش

سماج بنیاد سے گل رہا ہے، گلتے گلتے، ہم اس مقام تک آگئے ہیں کہ اپنے کھاد ہونے کی یہ بو ہمیں اپنی مٹی کی خوشبو لگنے لگی ہے اور ہم اسے اپنی تہذیب مان چکے ہیں۔

28 جنوری، 2023 کی اس تصویر میں راول پنڈی کا ایک موٹر سائیکل رکشے والا کسٹمر کا منتظر ہے (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

بہار تیزی سے گزر گئی، موسم گرما سر پہ کھڑا ہے۔ موسم گرما کا مطلب ادھر کچھ برسوں سے بجلی کے خوف ناک حد تک بڑھے ہوئے بل ہیں۔

جوں جوں گرمی بڑھتی جائے گی، بل میں صفروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ اضافہ روز افزوں ہے، ساتھ ہی پٹرول کی قیمت بھی بڑھے گی، متوسط طبقے کی ٹوٹی کمر مزید ٹوٹے گی اور اسی ٹوٹی کمر کے ساتھ گھسٹتے گھسٹتے، ہم ایک اور موسم گرما گزار ہی لیں گے۔

گزار تو ہم لیں گے مگر کب تک؟ ارباب حل و عقد کی طرف کیا نظر کریں؟ اصل مقتدرہ نے جو مضحکہ خیز افراد چننے تھے، چن لیے۔ وہی ریلیف کے لالی پاپ، وہی روز روز کے لطیفے اور میمز، وہی تلخی جو آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی ہے۔

ایران کے صدر گذشتہ دنوں جب پاکستان تشریف لائے تو پورا ملک ہنگامی طور پہ بند کر دیا گیا۔ شاید ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارت سے زیادہ نقصان اس طرح کے ہڑبونگ نما اقدامات سے ہوتا ہے۔

یہ تو خیر سے صدر تھے، یہاں تو کرکٹ میچ کرانے کے لیے بھی یہی نسخہ آزمایا جاتا ہے۔ کرکٹ ٹیم پھر بھی ہار جاتی ہے۔

کرکٹ دیکھ کے اتنی تفریح حاصل نہیں ہوتی جتنی کوفت راستوں کی غیر اعلانیہ بندش سے ہوتی ہے۔ بھیا ایسی کرکٹ سے بہتر ہے کہ ہم بنٹے کھیل لیں، بلکہ کوکلا چھپاکی زیادہ پر لطف کھیل ہے، ہلکا پھلکا تشدد بھی ہو جاتا ہے۔

بدانتظامی، مہنگائی، سماجی اور اخلاقی دیوالیے کے قریب پہنچے ہم لوگ، اب کسی بھی بات سے مشکل ہی سے بہلتے ہیں۔

اس پہ ایک اور سماجی بیماری موٹیویشنل سپیکرز کی شکل میں ہم پہ مزید مسلط کر دی گئی ہے۔

یہ موٹیویشنل سپیکر اور ان کے قبیل کی چیزیں بنتی اسی کارخانے میں ہیں جہاں پہلے تصوف کے ناپختہ تصورات کو بیچنے کے چھابے لگائے گئے تھے۔ 

تلخ سماجی حقیقتوں کی گتھیاں چرب زبانی سے کھول کے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والے یہ لوگ سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ نہیں بتاتے۔

ان سے بھی بڑھ کے وہ مخلوق ہے جو اپنے بلاگز اور وی لاگز کے ذریعے کھانا پکانا سکھاتے ہیں۔ اس وقت ہر شخص بشمول اداکاروں، تائب شدہ سیاست دانوں، پٹے ہوئے اینکرز اور بزعم خود عظیم ڈائریکٹرز کے آلو گوشت پکانے اور پینا کولاڈا بنانے کے صدری نسخے مسکرا مسکرا کے سکھا رہے ہیں۔

دکھ اس بات کا ہے کہ ان سب کے نسخوں میں ادرک لہسن کا پیسٹ ہر شوربے، ہر بھنے سالن، ہر دال، ہر سبزی میں ڈال کے گھونٹ دیا جاتا ہے۔

کم بختو! سماجی انحطاط کے اس دور میں اتنا تو نہ گرو کہ یہ بھی بھول جاؤ کہ یہ کھانے صدیوں کی انسانی تہذیب کے آئینہ دار ہوتے ہیں، آئین نہیں کہ جس کا دل چاہا جیسی چاہا ترمیم کر لی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تلخ باتیں چھیڑ ہی دیں تو یہ بھی سن لیں کہ مندرجہ بالا اقسام کے سماجی اور معاشی تشدد سے بچنے کے بعد ہم پہ وہ لوگ بھی مسلط ہیں جو اپنی دستکاریاں، کیک پیسٹریاں، پٹ سن کے بنے تھیلے، گھٹیا قسم کے شیمپو، تیل، خوشبویات اور رنگ برنگی مصنوعات ’آرگینک‘ اور ’گرین‘ کے نام سے گراں داموں بیچ کے خود کو ماحول دوست ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ یہ بھی اسی صنعتی ترقی کا دوسرا روپ ہے جو شکل بدل کے لوٹ رہا ہے۔

ان سے بچ جائیں گے تو وہ لوگ ہیں جو ادب کے نام پہ اوسط سے بھی کم درجے کا کام کر کے ہم جیسے بےچاروں کو دھمکا دھمکا کے اپنی کتابیں پڑھاتے ہیں۔

ان سب کو بھی یہی بیماری ہے کہ وہ دراصل اتنے عظیم ہیں کہ اس گھٹیا معاشرے میں کوئی ان کی قدر نہیں جانتا۔

یہ لوگ عوام کے جہل پہ سر پیٹتے اور دہرائی ہوئی باتوں کو پھر سے دہرا کے مصرعوں میں گرتے ہوئے الف، وغیرہ پہ غور کرتے رہتے ہیں۔

یہ سب یہیں، اسی ملک میں ہوتا ہے، ہمارے چاروں طرف ہوتا ہے۔ اس بار بھی ہو گا۔ غور کیجیے گا کہ آپ کی جیب، دماغ اور ذوق کو کئی طفیلیے نچوڑ رہے ہیں۔

سماج بنیاد سے گل رہا ہے، گلتے گلتے، ہم اس مقام تک آگئے ہیں کہ اپنے کھاد ہونے کی یہ بو ہمیں اپنی مٹی کی خوشبو لگنے لگی ہے اور ہم اسے اپنی تہذیب مان چکے ہیں۔

بات سے بات نکلتی ہے اور بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ موسم گرما میں بجلی کے بل اور بارشوں سے خود ہی ہوشیار رہیے گا وہ جنہوں نے ہمیں ریلیف دینا ہے وہ ابھی تک ضروری کام سے سو رہے ہیں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ