زہریلی شراب سے اموات: انڈین پنجاب سستی شراب بنائے گا

حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ گھر پر بنائی گئی وہسکی کے متبادل کے طور پر ’وہ لوگوں کو سستی قسم کی ملکی شراب فراہم کرنا چاہتی ہے۔‘

23 فروری 2019 کو شمال مشرقی انڈیا کی ریاست آسام کے گولا گھاٹ ضلع میں کشال کنور سول ہسپتال، زیرعلاج مریض نے زہریلی شراب پی لی تھی (اے ایف پی)

انڈیا کی شمالی ریاست پنجاب کی حکومت مقامی طور پر تیار کی گئی سستی قسم  کی شراب متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے تا کہ شراب پینے والوں کو غیر محفوظ دیسی شراب کے استعمال سے بچایا جا سکے۔

اخبار ٹائمز ناؤ کے مطابق انڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھاگ ونتی سنگھ من کی حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ گھر پر بنائی گئی وہسکی کے متبادل کے طور پر ’وہ لوگوں کو سستی قسم کی ملکی شراب فراہم کرنا چاہتی ہے۔‘

اخبار کے مطابق عدالت کو یہ بیان صوبے کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے دیا گیا ہے۔
پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ اسی سماعت کے دوران سینیئر وکیل اجیت سنہا نے نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے غیر قانونی طور پر شراب بنانے والی بھٹیوں کا سراغ لگا کر انہیں تباہ کرنے کے لیے مقامی سطح پر خفیہ اطلاعات کا نظام مضبوط بنایا ہے۔

دسمبر کے وسط میں انڈین ریاست بہار میں جعلی شراب پی کر کم از کم 39 افراد ہلاک ہو گئے جب کہ دیگر ہسپتال پہنچ گئے۔ ریاست میں شراب کی فروخت اور استعمال پر چھ سال تک پابندی لگا دی گئی ہے۔

جعلی شراب کے متاثرین میں زیادہ تر، جن میں سے بعض عرصے تک بیمار رہے، کو ہسپتال پہنچنے پر مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔

ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ دیہات کے دورے اور شراب فروخت کرنے والوں کا سراغ لگانے کی خاطر متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کے لیے ٹیمیں تشکیل دیں۔

اخبار سٹریٹ ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ 2017 سے 2021 کے درمیان جعلی شراب پینے کے نتیجے میں 5900 افراد ہلاک ہوئے۔ اخبار کا مزید کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے ان افراد میں سے 780 کا تعلق پنجاب سے تھا۔

اخبار نے مزید رپورٹ کیا کہ قانونی کارخانوں میں تیار کی گئی شراب کے حوالے سے توقع ہے کہ وہ مارچ 2023 تک بازار میں دستیاب ہو گی جس میں الکوحل کی مقدار 40  فیصد ہو گی۔

اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس شراب کے ہر 180 ملی لیٹر کے پاؤچ کی قیمت تقریباً 25 روپے (25 پینس) ہوگی۔ ایک لیٹر مہلک شراب کی ممکنہ قیمت لگ بھگ ایک سو انڈین روپے (ایک پاؤنڈ) ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل اجے پال نے دا سٹریٹس ٹائمز کو بتایا کہ ’غیر معیاری شراب کے سانحات میں مرنے والے زیادہ تر غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس محفوظ اور اچھی شراب کی قیمت ادا کرنے کے لیے وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ اس سستی جعلی شراب کی طرف آتے ہیں۔‘

2020 میں ملاوٹ والی شراب پینے سے کم از کم 104 افراد موت کے منہ میں گئے۔ ایسی صورتوں میں مرنے والوں کی تعداد اکثر بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ان کے خاندان قانونی کارروائی کے خوف سے طبی امداد لینے سے کتراتے ہیں۔

اس سال جولائی میں مغربی ریاست گجرات میں غیر معیاری شراب پینے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حکام نے بتایا کہ کیمیکل یونٹ سے چوری کی گئی صنعتی میتھائل الکوحل کو جعلی شراب بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں شراب کی فروخت اور استعمال پر پابندی ہے اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ پرمٹ رکھنے والے افراد ہی شراب پی سکتے ہیں۔

غیر قانونی طور پر تیار کی جانے والی الکوحل، جسے عام طور پر دارُو یا دیسی شراب کہا جاتا ہے، سے بھارت میں اموات عام ہیں جہاں شراب پینے والے بہت کم لوگ کسی کمپنی کی شراب خرید سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے روئٹرز کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا