جسٹس عیسیٰ دوسری نظرثانی پٹیشن: فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف گذشتہ حکومت کی جانب سے دائرہ کردہ کیوریٹو ریویو پر رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی سماعت آج چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے چیمبر میں کی اور اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائر عیسیٰ (تصویر بشکریہ سپریم کورٹ آف پاکستان)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف گذشتہ حکومت کی جانب سے دائرہ کردہ کیوریٹو ریویو پٹیشن (قابل اصلاح نظرثانی پٹیشن) پر رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی سماعت کے بعد آج فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پیر کو اپنے چیمبر میں اس معاملے پر سماعت کی اور اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے چیمبر سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کیوریٹو ریویو واپس لینے کی درخواست پر چیف جسٹس کے چیمبر میں پیش ہوا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوسری نظرثانی واپس لینے سے متعلق فیصلہ ابھی نہیں سنایا۔‘

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کے آئین و قانون میں دوسری نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہی ہمارا موقف تھا کہ حکومت نے اپیل دائر کی تھی اور اب حکومت ہی اس کو واپس لینا چاہتی ہے۔‘

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ’کیوریٹو ریویو انڈین سپریم کورٹ نے 2002 میں عوامی نوعیت کے مقدمے میں فیصلہ دیا تھا، جس کے بعد ترمیم کر کے اسے انڈین قانون کا حصہ بنایا گیا، جبکہ ہماری طرف ایسی کو مثال موجود نہیں اور یہ معاملہ بھی انتظامی نوعیت کا ہے جس پہ یہ قابل عمل نہیں ہے۔‘

موجودہ حکومت کی جانب سے کیوریٹو ریویو واپس لینے کی درخواست بھی آج ہی سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔

گذشتہ ماہ 30 مارچ کو وزیراعظم آفس سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کیوریٹوس ریفرنس کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر دائر ہوا تھا، لہذا حکومت نے اس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیان کے مطابق: ’ریفرنس کے نام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور بدنام کیا گیا۔‘

وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس کے بعد اگلے ہی روز 31 مارچ کو صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف قابل اصلاح نظرثانی ریفرنس واپس لینے کی منظوری دی اور یکم اپریل کو حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر اپیل واپس لینا چاہتی ہے اور اس کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتی۔

کیوریٹیو ریویو کہتے کسے ہیں؟

مئی 2021 میں نظرثانی اپیلوں پر وزارت قانون نے ایک اور نظر ثانی دائر کی تھی۔ نظر ثانی کے اوپر دائر نظر ثانی درخواست کو کیوریٹیو ریویو کہتے ہیں یعنی قابل اصلاح نظرثانی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یا پھر ایک کیس میں اپیل کا فیصلہ آ جائے اور اس فیصلے پر ایک اور اپیل دائر کرنے کو بھی کیوریٹیو ریویو کہتے ہیں۔

قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف دائر ریویو پٹیشن سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی تھی جبکہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے بھی اس پر اعتراض عائد کر دیا کیونکہ سپریم کورٹ میں دوسری دفعہ نظر ثانی درخواست کا اصول موجود ہی نہیں ہے۔

کیوریٹیو پٹیشن نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے یا ختم ہونے کے بعد عدالت میں ناانصافی سے بچنے کے لیے دستیاب آخری موقع ہوتا ہے۔

قابل اصطلاح نظرثانی کی درخواست ایک نیا تصور ہے۔ یہ سب سے پہلے بھارتی سپریم کورٹ نے تقریباً دو دہائیاں قبل تیار کیا تھا۔

کیوریٹیو پٹیشن کی شرائط

انڈین سپریم کورٹ نے کیوریٹو پٹیشن پر سماعت کے لیے کچھ مخصوص شرائط رکھی ہیں:

- درخواست گزار کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انصاف کے قدرتی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی اور جج کے تعصب اور فیصلے کے خوف نے اسے بری طرح متاثر کیا۔

- درخواست میں خاص طور پر یہ کہا جائے گا کہ نظر ثانی کی درخواست میں جن بنیادوں کا ذکر کیا گیا تھا وہ اٹھائے گئے تھے اور انہیں خارج کردیا گیا تھا۔

- اگر دستیاب ہو تو کیوریٹو پٹیشن کو پہلے تین سینیئر ترین ججوں کے بینچ اور متعلقہ فیصلہ سنانے والے ججوں کے بینچ کو بھیجا جانا چاہیے۔

- اگر ججوں کی اکثریت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اس معاملے کو سماعت کی ضرورت ہے تو اسے اسی بینچ کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔

- کیوریٹو پٹیشن پر غور کے کسی بھی مرحلے پر بینچ ایک سینیئر وکیل سے عدالتی معاون (عدالت کے دوست) کی حیثیت سے مدد کرنے کے لیے کہہ سکتی ہے۔

- کیوریٹو پٹیشن کا فیصلہ عام طور پر چیمبر میں ججوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جب تک کہ کھلی عدالت میں سماعت کے لیے مخصوص درخواست کی اجازت نہ دی جائے۔

- اگر درخواست میں میرٹ کی کمی ہے تو عدالت درخواست گزار پر ’مثالی قیمت‘ ادا کرنے کا کہہ سکتی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

صدارتی ریفرنس میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود اہلیہ اور بیٹے کے نام جائیداد کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر پاکستان کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، لہذا ان کی جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔‘

انہوں نے خط میں مزید کہا تھا کہ ’ٹیکس حکام نے انہیں کبھی اس حوالے سے کوئی نوٹس نہیں دیا، لہذا ان کے خلاف ریفرنس سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔‘

دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے بذریعہ ویڈیو لنک عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا تھا، جس میں انہوں نے یہ ساری تفصیلات فراہم کیں کہ انہوں نے لندن میں جائیداد کب اور کیسے خریدی اور اس کے لیے رقوم کہاں سے آئیں۔

جون 2020 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں عدالت نے ایف بی آر کو ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جائیداد اور ٹیکس کے معاملات دیکھنے کے بارے میں حکم دیا تھا اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

اپریل 2021 میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں منظور کی تھیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سمیت تمام فورمز پر اس سلسلے میں جاری قانونی کارروائی کو کالعدم قرار دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان