ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟

پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے اسلام آباد میں سہ فریقی اجلاس کے دوران ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت افغانستان کے شہر مزار شریف سے پاکستان تک ریلوے ٹریک بچھائے جائیں گے، جس سے وسطی ایشیا کے ممالک کو درآمدات میں آسانی پیدا ہو گی۔

افغان حکام کے مطابق یہ ریلوے ٹریک مزار شریف سے افغانستان کے صوبے پکتیکا تک اور قبائلی ضلع کرم میں پاکستان افغان سرحد خرلاچی سے گزرتا ہوا پاکستان کی بندرگاہوں تک مال سپلائی کرنے میں مدد دے گا (افغانستان ریلوے اتھارٹی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے منگل کو اسلام آباد میں سہ فریقی اجلاس کے دوران ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت افغانستان کے شہر مزار شریف سے پاکستان تک ریلوے ٹریک بچھائے جائیں گے، جس سے وسطی ایشیا کے ممالک کو درآمدات میں آسانی پیدا ہو گی۔

افغان حکام کے مطابق یہ ریلوے ٹریک مزار شریف سے افغانستان کے صوبے پکتیکا تک اور قبائلی ضلع کرم میں پاکستان افغان سرحد خرلاچی سے گزرتا ہوا پاکستان کی بندرگاہوں تک مال سپلائی کرنے میں مدد دے گا۔

اسلام آباد میں واقع افغان سفارت خانے کے مطابق پہلے یہ روٹ مزار شریف سے کابل اور کابل سے ننگرہار سے ہوتا ہوا طورخم بارڈر تک پہنچنا تھا لیکن اب اس روٹ میں تبدیلی کر کے اسے مزار شریف سے لوگر اور ضلع کرم میں خرلاچی بارڈر تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔

خرلاچی بارڈر طورخم کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین سرکاری بارڈر ہے، جس کے ذریعے مختلف اشیا کی درآمدات و برآمدات کی جاتی ہیں۔

ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ کیا ہے؟

ٹرانس افغان ریلوے منصوبے پر ابتدائی کام 2017 کے آخر میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے ازبکستان کے اس وقت کے صدر شوکت مرزایوف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس منصوبے کے تحت افغانستان کے شمالی صوبے بلخ کے تجارتی مرکز مزار شریف سے ہرات تک ریلوے لائن بچھائی جانی تھی۔

جریدے ’یورو ایشیا‘ میں شائع ایک مضمون کے مطابق اس منصوبے کو ازبکستان کے شہر ہیراتان سے افغانستان میں مزار شریف تک 2011 میں شروع کی گئی ریلوے لائن کے ساتھ جوڑنے کا منصوبہ تھا، جس کے بعد اسے کابل سے گزار کر افغان صوبے ننگرہار کے راستے پاکستان کے طورخم بارڈر تک پہچانا شامل تھا۔

اس منصوبے کا مقصد ازبکستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کی مارکیٹ تک رسائی آسان بنانا اور وہاں کی مارکیٹوں سے سامان کی پاکستان اور افغانستان تک آسان رسائی ہے۔

سابق افغان صدر اشرف غنی اور ازبکستان کے حکام کے مابین 2017 میں ہونے والے معاہدے کے بعد 2018 میں تاشقند میں سہ فریقی اجلاس کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں افغانستان، پاکستان اور ازبکستان کے حکام نے شرکت کی تھی اور اس میں مزار شریف سے کابل تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شامل کیا گیا تھا۔

اس منصوبے پر 2021 میں کام شروع کیا جانا تھا، لیکن اگست 2021 میں کابل پر افغان طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہ منصوبہ تاخیر کا شکار رہا کیونکہ منصوبے کی فنڈنگ دینا اور سکیورٹی حالات کی وجہ سے اس پر کام شروع کرنا ممکن نہیں تھا۔

تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس منصوبے میں دلچپسی کا اظہار کیا گیا اور جنوری 2022 میں تاشقند میں ایک دوسرا سہ فریقی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پاکستان، افغان طالبان اور ازبکستان کے حکام نے شرکت کی اور منصوبے کو حتمی شکل دینے پر بات چیت کی گئی تھی۔

افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’باختر‘ کے مطابق اس منصوبے پر اندازً پانچ ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا اور یہ ازبکستان کے شہر ترمیز کو کابل اور پشاور سے ملائے گا جو مجموعی طور پر تقریباً 600 کلومیٹر ریلوے ٹریک ہوگا۔

اس منصوبے کے مطابق ازبکستان سے 35 دنوں کے بجائے تین سے پانچ دن میں مال بردار گاڑیاں ازبکستان سے پاکستان پہنچیں گی اور سامان لے جانے پر خرچہ تین گنا کم ہوجائے گا جبکہ اندازے کے مطابق سامان کی رسد میں 10 ملین ٹن تک اضافہ متوقع ہے۔

 یوروایشیا کے مطابق یہ منصوبہ 2027 تک مکمل ہوسکتا ہے اور 2030 تک اس راستے سے سامان کی رسد سالانہ 15 ملین تک پہنچ سکتی ہے جبکہ سامان لے جانے پر خرچے میں 30 سے 40 فیصد کمی آئے گی۔

ازبکستان کی خبر رساں ایجنسی ازرپورٹس (Uzreports) کے مطابق اس منصوبے کو فنڈ فراہم کرنے میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپین بینک فار کنسٹرکشن اینڈ ڈیویلپمنٹ، اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک اور ایشیا انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ بینک سمیت انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔

’انٹرنینشل ریل جرنل‘ کے مطابق یہ منصوبہ ترکمانستان کے اقینہ اندخوئی بارڈر کے راستے پاکستان کو ترکمانستان کے ساتھ بھی جوڑے گا۔

منصوبے سے پاکستان کو کیا فائدہ مل سکتا ہے؟

ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں پروفیسر اور ماہر معشیات ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ریل روڈ معاشرے کے لیے اور کسی بھی ملک کے لیے مختلف زاویوں سے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ یہ ٹرانسپورٹ کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ریل روڈ منصوبوں سے ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور تجارت کے نئے مواقع لوگوں تک پہنچتے ہیں، تاہم ڈاکٹر ناصر اقبال کو ٹرانس افغان ریل منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے خدشات ہیں۔

 انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ منصوبہ تمام ملکوں کے لیے فائدہ مند ہے لیکن افغانستان کی موجودہ جغرافیائی صورت حال کو دیکھ کر اور اس پر بے اعتمادی کی فضا کی وجہ سے مجھے نہیں لگتا کہ یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔‘

جب ڈاکٹر ناصر سے پوچھا گیا کہ چین اس منصوبے سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ منصوبہ مستقبل میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، جو چین کا تقریباً 150 ممالک کے ساتھ سفری آسانی کے لیے ایک بڑا منصوبہ ہے، کا حصہ ہو جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چین اس منصوبے کو سٹریٹیجک منصوبہ بنائے گا، نہ کہ معاشی منصوبہ، کیونکہ یہ منصوبہ چین کو فائدہ دے سکتا ہے۔

روٹ کو خرلاچی تک کیوں کر دیا گیا؟

خیبر چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور پاکستان افغان تجارتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے شاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے یہ روٹ کابل اور جلال آباد سے ہوتا ہوا طورخم تک پہنچنا تھا لیکن اس میں تبدیلی کی وجوہات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں۔

تاہم شاہد حسین کے مطابق: ’چونکہ افغانستان میں پکتیا سمیت اطراف کے صوبے پسماندہ ہیں، تو طالبان چاہتے ہیں کہ وہاں کے علاقے ترقی کر سکیں لیکن اس حوالے سے تفصیلات تب آئیں گی جب اس نئے روٹ کی فیسیبیلٹی سٹڈی سامنے آجائے۔‘

پاکستان کے لیے طورخم زیادہ فائدہ مند ہے یا خرلاچی؟ اس سوال کے جواب میں شاہد حسین نے بتایا کہ ’افغانستان کے مشرقی صوبوں اور مرکزی صوبوں تک پاکستان سے رسائی براستہ طورخم آسان ہے اور اگر لاہور، اسلام آباد اور پشاور سے تجارت کرنی ہے تو طورخم آسان رہے گا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’خرلاچی میں سکیورٹی حالات کے علاوہ دیگر مسئلے بہت زیادہ ہیں، جس کے لیے وہاں کے مختلف قبائل کو خوش کرنا پڑے گا جبکہ طورخم میں مسائل اتنے نہیں ہیں تو طورخم کا راستہ مسائل سے پاک ہے۔‘

خرلاچی اور طورخم دونوں پہاڑی راستے ہیں لیکن پاکستان کی طرف طورخم کے ساتھ لنڈی کوتل تک انگریز دور کی ریلوے لائن پہلے سے موجود ہے جو خراب حالت میں ہے لیکن نئے لائن کی بہ نسبت اسے بحال کرنا زیادہ آسان ہو گا۔

اس کے مقابلے پر خرلاچی روٹ پر پاکستان کی جانب نیا لائن بچھانی پڑے گی اور پشاور کو کنیکٹ کرنے لیے تو کوہاٹ سے آگے بھی نئی لائن بچھانی پڑے گی جس کی بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

خرلاچی بارڈر ضلع کرم میں پاڑا چنار کے ساتھ متصل ہے، جہاں ماضی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں، جن کی وجہ سے خرلاچی بارڈر کو کئی سالوں تک بھی بند کرنا پڑا تھا۔ حال ہی میں پاڑا چنار میں زمینی تنازعے پر دو قبائل کے مابین چھ روز تک جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔

شاہد حسین کے مطابق اگر اس منصوبے کو خرلاچی سے تبدیل بھی کیا گیا ہے تو اس ریلوے لائن سے طورخم تک ایک کنیکٹنگ لائن ضرور ہونی چاہیے۔

پاکستان افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور فرنٹیئر کسٹمز کے صدر ضیاالحق سرحدی پاکستان افغان تجارت کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ منصوبہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن پاکستان کو ملک کے اندر ریلوے کی ابتر صورت حال کا بھی نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان افغان ٹرانزٹ لائن ہوا کرتی تھی، جسے اب بند کردیا گیا ہے۔

ضیال الحق سرحدی نے بتایا: ’لنڈی کوتل تک ریلوے لائن موجود ہے۔ یہ پہلے تجارتی لائن ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ بند اور خستہ حال پڑی ہوئی ہے تو دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود اس ریلوے لائن کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان