کیا ملتانی کھسہ واقعی ملتان میں بنتا ہے؟

کڑھائی والے ملتانی کھسے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن کیا یہ واقعی ملتان میں بنتے ہیں؟

کڑھائی والے ملتانی کھسے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن کیا یہ واقعی ملتان میں بنتے ہیں؟

35 سال سے ملتانی کھسے تیار کرنے والے کاریگر پرویز اقبال کہتے ہیں کہ ویسے تو اسے ملتانی کھسہ کہتے ہیں کیونکہ ملتان میں کھسوں کی بڑی مارکیٹ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ روایتی کھسہ کبیر والہ کا ہی ہے۔

جدت کی وجہ سے اب یہ کھسے زیادہ تر مشینوں پر تیار ہوتے ہیں لیکن کبیر والہ میں آج بھی انہیں ہاتھ سے تیار کیا جا رہا ہے۔

پرویز اقبال نے بتایا کہ اس کھسے کی تیاری میں استعمال ہونے والا چمڑہ مختلف مراحل سے گزر کر ایک ماہ بعد اس قابل ہوتا ہے کہ اس سے جوتے تیار کیے جا سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہنرمند چمڑہ خریدنے کے بعد اسے مزید دھو کر، صفائی کر کے اور سکھا کر مختلف سائز کے تلوے اور اوپری حصے تیار کرتے ہیں۔

دبکے اور کڑھائی والے کھسوں کے لیے مطلوبہ حصے خواتین کاریگروں کو بھیجے جاتے ہیں، جہاں سے زری یا دوسری دستکاریوں کے بعد انہیں واپس جوتا بنانے والوں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔

ایک کھسے کی ہاتھ سے تیاری تقریباً چھ ہنر مند 15 دنوں میں کرتے ہیں۔

ان ہنر مندوں میں چمڑہ صفائی والے، کٹائی والے، کڑھائی والے، زری والے، کھسہ جوڑ کر سلائی کرنے اور فرمہ لگانے والے شامل ہیں۔

تاہم خام مواد مہنگا ہونے اور کاریگروں کو محنت کے مطابق مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے اب ان خاص کھسوں کا رواج اور کام کم ہوتا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل