آڈیو لیکس کیس: سابق حکومت کا سپریم کورٹ بینچ پر اعتراض مسترد

جسٹس اعجازالاحسن نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ججز پر اعتراض عدالت پر حملے کے مترادف ہے۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا منظر (قرۃ العین شیرازی/ انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابقہ حکومت کے بینچ پر اعتراض کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ 

آڈیو لیکس کمیشن کیس میں وفاقی حکومت نے بینچ کے تین ججوں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ حکومت نے موقف اپنایا تھا کہ تینوں ججز کا کیس سننا مفادات کا ٹکراؤ ہے، اس لیے مقدمے سے الگ ہو جائیں۔ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے چھ جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ججز پر اعتراض ’عدالت پر حملے‘ کے مترادف ہے۔ بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی شامل تھے۔

بعدازاں تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کا بینچ پر اعتراض پنجاب الیکشن کیس سے جڑا ہے۔ حکومت نے متعدد مقدمات میں بینچ پر اعتراض اٹھایا۔ تین ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔

مزید کہا گیا کہ بینچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے بینچ کے ارکان کو ہراساں کرنے کے لیے دائر کی گئی۔ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کے لیے درخواستیں دائر کیں، آڈیو لیکس کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کے ٹکراؤ اور تعصب جیسی بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی۔ آڈیو لیکس کیس کے خلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا جبکہ وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کے خلاف بیان بازی کی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزرا نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے خلاف کیس میں عوامی فورمز پر اشتعال انگیز بیانات دیے جن کا مقصد وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینا تھا۔

’سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ان مقدمات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا۔ کسی عدالتی فیصلے سے متعلق حتمی عدالتی فیصلے کی پابندی لازم ہے۔ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیے گئے ہیں، حکومت کی متفرق درخواست عدلیہ پر حملہ ہے، اس لیے درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ بینچ کے ججز پر اعتراض کے لیے دائر کی گئی درخواست مذموم مقاصد کے لیے دائر کی گئی۔‘

فیصلے کے مطابق بینچ سے علیحدگی کی درخواست کا تعلق 14 اور 18 جنوری کو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے ہے۔ آرٹیکل 224 کے تحت پنجاب میں 14 اپریل اور خیبرپختونخوا میں 18 اپریل کو انتخابات ہونا تھے۔ متعلقہ حکام نے ڈیڈ لائن کے باوجود انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، جس کے نتیجے میں پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر ہوئیں۔‘

سابقہ اتحادی حکومت نے رواں برس 19 مئی کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر پرویز الہیٰ اور چیف جسٹس کی ساس کی مبینہ آڈیوز سمیت نو مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔

کمیشن میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان بھی شامل تھے، تاہم بعدازاں سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روک دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان