سوات: خواتین کو کرکٹ کھیلنے سے کیوں روکا گیا؟

صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں ایک مقامی کرکٹ اکیڈمی نے اتوار کو خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک پریکٹس میچ کا انعقاد کیا تھا جسے بعد ازاں روک دیا گیا۔

نامعلوم تاریخ کی یہ تصویر سوات کی اسی اکیڈمی کی جہاں یہ خواتین کرکٹ کی تربیت حاصل کرتی ہیں(تصویر: ایاز خان)

صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں ایک مقامی کرکٹ اکیڈمی نے اتوار کو خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک پریکٹس میچ کا انعقاد کیا تھا جسے بعد ازاں روک دیا گیا۔

میچ کے منتظم اور نجی سپورٹس اکیڈمی کے مالک ایاز خان نائیک نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا ’ضلع سوات میں کل (یکم اکتوبر) بعض افراد نے خواتین کو کرکٹ کھیلنے سے روک دیا تھا۔‘

ایاز خان نائیک نے بتایا کہ ’اس کھیل کو روکنے سے کھلاڑیوں کو بے حد رنج پہنچا ہے۔‘

تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے گذشتہ روز خواتین کے کرکٹ مقابلے کے لیے اکیڈمی نے حکومتی اداروں سے اجازت نامہ نہیں لیا تھا۔

گراؤنڈ کے قریب واقع چار باغ پولیس سٹیشن کے ڈی ایس پی انور خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’متعلقہ اکیڈمی نے حکومتی اداروں سے اجازت نامہ (ایم او سی) نہیں لیا تھا اور نہ ہی یہ گراؤنڈ خواتین کے کھیلنے کے لیے محفوظ جگہ تھی۔‘

ڈی ایس پی انور خان کا مزید کہنا تھا کہ ’مرد تماشائیوں کے جمع ہونے اور اطراف سے دوسرے خطرات کا خدشہ بھی تھا۔ تاہم یہ معاملہ گذشتہ روز ہی حل کر لیا گیا تھا۔‘

پولیس سے اجازت نامہ نہ لینے کے سوال پر ایاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اجازت نامے تو کسی بڑے قومی و بین الاقوامی مقابلوں کے ہوتے ہیں۔ یہاں تو ایک مہذب طریقے سے کرکٹ کھیلی جا رہی تھی۔‘

ایاز خان نے واقعے کے حوالے سے مزید بتایا کہ وہ اور خواتین کھلاڑی حالات سے بے خبر جیسے ہی کھیل کے میدان پہنچے، تو اس دوران وہاں پولیس، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر مقامی عہدیداران بھی پہنچ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ’تب معلوم ہوا کہ دراصل سوات میں ایک مقامی نیوز چلانے والے شخص نے غلط خبر پھیلا کر عوام کو خواتین کھلاڑیوں کے خلاف بھڑکایا اور تمام مردوں کو تماشہ دیکھنے کی دعوت دی۔‘

ایاز خان کہتے ہیں کہ ’گذشتہ سالوں میں ان کی اپیل کے باوجود حکومت نے کبھی پسماندہ علاقوں کی خواتین کھلاڑیوں کو فنڈ نہیں دیا لہٰذا ایک طویل عرصے بعد انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 50 ہزار روپے جمع کر کے 24 کھلاڑیوں کو تربیت دے کر ان کا مقابلہ منعقد کروایا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا مقصد 24 میں سے 12 کھلاڑی منتخب کر کے پاکستان کو بہترین خواتین کرکٹ کھلاڑی دینا تھا۔ لیکن تعاون کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔‘

دوسری جانب سوات کے علاقے چار باغ میں جمیعت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے تحصیل چیئرمین احسان اللہ نے میچ کو روکے جانے کی وجہ ’امن وامان کے خراب صورت حال کو قرار دیا ہے۔‘

احسان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے خواتین کو کرکٹ کھیلنے سے منع کیا گیا تھا، کیونکہ باؤنڈری وال نہ ہونے کے سبب کوئی حادثہ جنم لے سکتا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین