غربت کی لکیر کیا ہے اور پاکستان میں کون اس کی زد میں ہے؟

ورلڈ بینک کی حالیہ ششماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال مزید ایک کروڑ 25 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

 17 مئی 2022 کو راولپنڈی میں ایک شخص کچرے میں سے دوبارہ استعمال کے قابل اشیا تلاش کر رہا ہے (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

ہر سال بین الاقوامی ادارے مختلف ممالک کے حوالے سے ایسی رپورٹس شائع کرتے ہیں، جس میں اکثر ’خط غربت‘ یعنی غربت کی لکیر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لکیر کا تعین کس بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

عالمی بینک (ورلڈ بینک) نے بھی اپنی حالیہ  رپورٹ میں خصوصی طور پر پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان میں رواں سال مزید ایک کروڑ 25 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2022 میں 34.2 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے تھے، جبکہ رواں سال یہ شرح 39.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

اس رپورٹ میں مختلف عوامل سمیت پاکستان کی غیر مستحکم سیاسی صورت حال کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

جبکہ دیگر وجوہات میں اندرونی و بیرونی درآمدات کی حوصلہ شکنی، اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اور 2022 میں سیلاب کی تباہ کاریاں شامل کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے فصلوں اور مال مویشیوں کو نقصان پہنچا۔

غربت کی لکیر کیا ہے؟

اقتصادی ماہرین اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابقـ ’غربت کی لکیر’ مال و زر کی حد ہے، لہٰذا اگر ایک شخص اس لکیر پر کھڑا ہوجاتا ہے تو اسے غربت کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی بینک اور اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص کی یومیہ آمدنی 2.15 امریکی ڈالرز (تقریباً چھ سو روپے) ہے (جو ایک عالمی حد ہے) تو وہ غربت کی صف میں شمار ہوگا، تاہم اگر یومیہ آمدنی اس سے کم ہو تو اسے غریب ترین یعنی ’خط غربت سے نیچے‘ سمجھا جائے گا۔

پشاور یونیورسٹی میں شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر ذلاکت ملک کے مطابق: ’غربت کی لکیر کے نیچے وہ افراد ہوتے ہیں، جو دو وقت کھانے کی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتے، نتیجتاً یہ لوگ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سمیت اکثر ایک محفوظ پناہ گاہ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔‘

پروفیسر ذلاکت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دو ڈالر یومیہ آمدنی کا عالمی بینچ مارک درست نہیں کیونکہ یہ پاکستان جیسے ممالک کے حالات کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’پاکستان میں ہوشربا مہنگائی کے تناظر میں دو ڈالر یومیہ آمدنی یعنی چھ سو پاکستانی روپے جو کہ ماہانہ تقریباً اٹھارہ ہزار بنتے ہیں، بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا: ’دنیا میں مختلف معیشت والے ممالک ہیں، کہیں کم آمدنی والے ہیں تو کہیں درمیانی۔ اسی حساب سے یومیہ آمدنی کا حساب بھی الگ ہوگا۔‘

پروفیسر ذلاکت ملک نے کہا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنے دور میں پاکستان میں ’کیلوریز کا پیمانہ‘ نکالا تھا، جو پھر بھی غربت کا سدباب نہ کرسکا۔

 انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان میں عوام کو خط غربت سے بچانے کے لیے حکومت کو کارپوریٹ سیکٹر پر قوانین لاگو کرنے ہوں گے جو مزدوروں اور ملازمین کو کم اجرت پر رکھ کر ان کا استحصال کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادیات پروفیسر ڈاکٹر سید وقار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل یومیہ دو ڈالرز کا فارمولا ’سروائیول‘ یعنی گزارے کے تناظر میں بنایا گیا ہے۔

’اس کا مطلب ہے کہ ایک انسان بس اتنی کیلیوریز لے کہ اگلے دن کام پر جا سکے۔‘

ڈاکٹر وقار نے معاشی مسائل کو معاشرتی مسائل سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافے کی وجوہات ایک خاندان کا تین نسلوں کو پالنا، گھر میں پانچ سے دس افراد میں صرف ایک شخص کی کمائی اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

بقول ڈاکٹر وقار: ’کہیں والدین اور کہیں بچے والدین پر انحصار کر رہے ہیں۔ اگر شادی کے بعد بیٹا الگ ہو جائے تو اس کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ تب اس کو والدین کے گھر کے اخراجات بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ جہاں کئی ملکی اور بیرونی مسائل درپیش ہیں، وہیں پاکستانی معاشرتی نظام بھی غربت کو عوام پر مسلط کرتا رہے گا۔

جامعہ پشاور کے شعبہ سوشل ورک میں ’سوشل پرابلمز‘ مضمون کے اسسٹنٹ پروفیسر فائق سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خط غربت کے تین تصورات ہیں، جو ایک فرد کو غربت کی فہرست میں ڈالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک تصور صحت کے حوالے سے ہے، جس میں ایک شخص کی یومیہ کیلیوریز پورے نہ ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ دوسرا تصور یومیہ آمدنی کا ہے جو کہ موجودہ وقت میں یومیہ دو ڈالرز ہیں۔ اسی طرح خط غربت کا تیسرا تصور بنیادی ضروریاتِ زندگی جیسے کہ شیلٹر، صحت، خوراک اور تعلیم کی استطاعت نہ رکھنا ہے۔

’ان تین تصورات کی وجوہات سماجی، سیاسی، جغرافیائی، اقتصادیاتی اور دیگر ہیں۔‘

غربت سے بچاؤ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مختلف حکومتوں میں عوامی سکیمیں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ کوششیں پھر بھی ناکافی ہیں، جو کہ غربت کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت