ضلع خیبر میں پشتون سرزمین کی تاریخ پر مبنی منفرد میوزیم

اس میوزیم کا تصور پیش کرنے والے تاریخ دان ایاز خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں کہیں بھی ایسا میوزیم نہیں ہے، جہاں ان نامور پشتون ہیروز کے بارے میں معلومات ملتی ہوں، جن کا تاریخ میں بڑا نام اور مرتبہ تو ہے لیکن انہیں یکسر بھلا دیا گیا ہے۔

قبائلی ضلع خیبر میں تاریخ کا پہلا ایسا عجائب گھر (میوزیم) تعمیر کیا گیا ہے، جس میں پشتون سر زمین کی دو ہزار پانچ سو سالہ تاریخ، یہاں بسنے والی قدیم ترین قوموں کے سازوسامان سمیت درہ خیبر سے گزرنے والے فاتحان اور بادشاہوں کی نایاب تصاویر رکھی گئی ہیں۔

اس میوزیم کا تصور پیش کرنے والے پشتون تاریخ دان بریگیڈیئر (ر) محمد ایاز خان ہیں، جبکہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والے پشاور کے قلعہ بالا حصار میں فرنٹیر کور کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نور ولی ہیں۔

یہ میوزیم تاریخی ’خیبر رائفلز میس‘ کے اندر تعمیر کیا گیا ہے، جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سمیت دنیا بھر کی دیگر نامور شخصیات بھی تشریف لا چکی ہیں۔

ان شخصیات میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم، شہزادی ڈیانا، سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور ان کی اہلیہ اور ایسی کئی عالمی شخصیات شامل ہیں، جن کے دورے کی یادگار تصاویر تفصیلات سمیت اسی میوزیم کے اندر ایک گیلری میں سجائی گئی ہیں۔

ایاز خان کہتے ہیں کہ یہ بہت عجیب ہے کہ درہ خیبر کی تاریخ نہایت اہمیت کی حامل ہونے کے باوجود کبھی اس بارے میں نہیں سوچا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف ضلع خیبر میں موجود تاریخی مقامات بلکہ اس درے سے جڑی تاریخ کو بھی محفوظ کیا جاتا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’بہر کیف ایسا کوئی میوزیم خیبرپختونخوا تو کیا پورے پاکستان میں کہیں نہیں تھا، لیکن اب ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بین الاقوامی معیار کا ایک ایسا میوزیم بنا دیا ہے جو پختونوں کے لیے بالخصوص اور تمام پاکستان کے لیے بالعموم باعث فخر ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایاز خان نے مزید بتایا کہ پاکستان میں کہیں بھی ایسا میوزیم نہیں ہے، جہاں ان نامور پشتون ہیروز کے بارے میں معلومات ملتی ہوں، جن کا تاریخ میں بڑا نام اور مرتبہ تو ہے لیکن انہیں یکسر بھلا دیا گیا ہے۔

’اس میوزیم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں پختون ہیروز کی تصاویر اور معلومات ملیں گی اور چونکہ انہیں یاد نہیں رکھا گیا، اس لیے ان کی تصاویر بھی کافی مشکل سے ملیں۔‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس میوزیم میں ان جنگوں کی معلومات اور تفصیلات کی ایک گیلری بھی قائم کی گئی ہے جن میں خیبر رائفلز میس نے حصہ لیا۔ ان جنگوں میں انیسویں صدی کے آغاز سے بیسویں صدی میں 1971 تک لڑی جانے والی جنگوں کی معلومات اور تصاویر شامل ہیں۔

یہ میوزیم بہت ترتیب کے ساتھ تاریخ، نوادرات، ورثوں، اسلحے، جنگوں اور عالمی شخصیات کے دوروں اور ان کی یادداشتوں کو پیش کرتا ہے۔

قابل ذکر یہ بھی ہے کہ چند مہینوں کے اندر نہ صرف یہ میوزیم تعمیر کیا گیا اور تاریخی خیبر رائفلز میس کی ازسر نو سجاوٹ کی گئی بلکہ انگریز دور میں تعمیر کیے گئے قلعہ علی مسجد اور میچنی پوسٹ کو بھی ازسر نو بحال کیا گیا ہے۔

ایاز خان کہتے ہیں کہ دونوں تاریخی مقامات کا آدھے سے زیادہ حصہ گر کر تباہ ہوچکا تھا اور کافی قیمتی سامان بھی غائب تھا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ قلعے کو دوبارہ پرانے پتھر سے ملتی جلتی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا اور پرانی دیار کی لکڑی اور تانبےکو صاف کرکے عمارت میں دوبارہ استعمال کرکے قلعہ  کھڑا کر دیا گیا ہے، جہاں سے درہ خیبر سمیت پوری وادی پشاور نظر آتی ہے، جو کافی مسحور کن منظر ہوتا ہے۔

محمد ایاز خان نے مزید بتایا کہ تاریخی مقامات کی بحالی کا سلسلہ مزید آگے بڑھایا جائے گا تاکہ سیاحت کو فروغ ملے اور مصدقہ تاریخ کو محفوظ کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ