کار ریسنگ میں تاریخ رقم کرنے والے برٹش پاکستانی ڈرائیور

لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کی اس واڈکاسٹ میں پاکستانی اور جنوبی ایشیائی نژاد شخصیات کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر گپ شپ کی جاتی ہے۔

انعام احمد نے نیشنل اور انٹرنیشنل کارٹنگ کے ایک سال میں پانچ مقابلے جو ان سے پہلے کوئی برطانوی ڈرائیور نہیں کر پایا۔ ۔ (فوٹو: انعام احمد انسٹاگرام)

انعام احمد آٹھ سال کے تھے جب کارٹنگ کرنے گئے تو وہاں ٹو سٹروک انجن کے دھوئیں کی بُو ذہن میں نقش رہ گئی۔ ایسی بُو جو بقول ان کے ’نشہ آور‘ سی لگی لیکن ان کی زندگی میں نیا جنون پیدا کر گئی۔

کار ریس ڈرائیور بننے کا جنون، جس کی پیروی کرتے ہوئے انعام احمد نے چھوٹی عمر میں ہی برطانوی اور بین الاقوامی کارٹنگ اور کار ریسنگ کے مقابلے جیتنا شروع کیے اور ان کی فتوحات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

23 سالہ برٹش پاکستانی ڈرائیور انعام احمد لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کی واڈکاسٹ ’ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز‘ کی چھٹی قسط کے مہمان بنے۔

میزبانوں مِم شیخ اور علی حمزہ کے ساتھ گپ شپ میں انعام احمد نے بتایا کہ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے انہیں ریسنگ کے خطرناک کھیل میں قدم رکھتے ہوئے والدین کی جانب سے تحفظات کا سامنا کرنا پڑا البتہ جب ان کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو والد نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ والدہ آج بھی انہیں ریس میں کار دوڑاتے ہوئے دیکھنے کے لیے ٹریک پر نہیں آتیں لیکن انہیں اپنا ’خواب‘ کو پورا کرنے سے نہیں روکا۔

انعام احمد کے بقول اگرچہ ان کے والدین کھیلوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے لیکن 2008 میں پہلی مرتبہ اقلیتی نسل سے تعلق رکھنے والے برطانوی ڈرائیور لیوئس ہیملٹن فارمولا ون گراں پری کے چیمپیئن بنے تو انعام احمد کے والدین بہت متاثر ہوئے اور اپنے بیٹے کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ انعام احمد نے نیشنل اور انٹرنیشنل کارٹنگ کے ایک سال میں پانچ مقابلے جیتے جو ان سے پہلے لیوئس ہیملٹن سمیت کوئی بھی برطانوی ڈرائیور نہیں کر پایا۔ ان کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ کی اولین کار ریس ایف تھری کہلاتی ہے جس میں انعام احمد چیمپیئن بنے اور آج کل امریکہ کی انڈی این ایکس ٹی کے ڈرائیور ہیں جہاں زیادہ تر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے لوگ انہیں سپانسر کرتے ہیں۔ کار ریسنگ جیسے مہنگے کھیل کے لیے وہ خود، در در جا کر کاروباری لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول لوگوں کو اپنا ’خواب‘ بیچنا پڑتا ہے جس کے لیے مستقل مزاج ہونا ضروری ہے او یہ مستقل مزاجی انہیں ’مذہب‘ سے ملی۔

انعام احمد نے اپنے ہیلمٹ پر پاکستانی پرچم چھپوایا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ انہیں اپنی پاکستانی وراثت پر فخر ہے البتہ وہ برطانیہ کی جانب سے ریسنگ کرتے رہیں گے جہاں وہ پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔

ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز میں گفتگو کرتے ہوئے انعام احمد نے انکشاف کیا کہ انہیں چھوٹی عمر میں ٹریک پر نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا جسے انہوں نے کبھی آڑے نہیں آنے دیا اور کھیل میں مہارت بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھی۔

انعام احمد مشرق وسطیٰ میں کار ریسنگ کی اکیڈمی بنانا چاہتے ہیں تاکہ مشرق خصوصاً مسلم دنیا کے نوجوان کی اس کھیل میں نمائندگی بڑھ سکے۔

ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز، انڈپینڈنٹ اردو کی لندن سے واڈکاسٹ ہے جس کا مقصد برطانیہ میں پاکستانی اور جنوبی ایشیائی نژاد شخصیات کی کامیابیوں کی داستانوں کو اجاگر کرنا ہے۔ واڈکاسٹ میں جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کی ثقافتی شناخت کی بُنت پر ہلکی پھلکی گپ شپ کی جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا