ٹی ٹی پی کے چھ ہزار جنگجو افغانستان میں رہ رہے ہیں: آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی کا کہنا ہے تحریک طالبان پاکستان کے چھ ہزار جنگجو افغانستان میں سکون سے رہ رہے ہیں اور پاکستانی سرحد پر حملوں میں ملوث ہیں۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی کا کہنا ہے تحریک طالبان پاکستان کے چھ ہزار جنگجو افغانستان میں سکون سے رہ رہے ہیں اور پاکستانی سرحد پر حملوں میں ملوث ہیں۔

آصف درانی نے یوٹیوب چینل ’دی ایمبیسیڈرز لاؤنج‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جنگجو پاکستانی سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک تشویش کی بات ہے بلکہ اس کا اثر پاکستان افغانستان تعلقات پر بھی ہو گا۔‘

ان کے مطابق ’ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں رہ رہے ہیں۔ انہیں وہاں پناہ دی گئی ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’افغان طالبان کے وزرا نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سپریم کمانڈر ملا ہبت اللہ اخوند نے پاکستان پر حملے نہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ کیا ہم نے یہ مان لیں کہ ٹی ٹی پی ان کے حکم کی حکم عدولی کر رہی ہے۔‘

تاہم  طالبان کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک سرکاری طور پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم انواراحق کاکڑ کے حالیہ بیان پر آصف درانی کا کہنا تھا کہ ’نگران وزیراعظم نے بہت واضح انداز میں اس خطرے پر پاکستانی تشویش کا اظہار کیا ہے جو ہمیں افغانستان سے لاحق ہے۔‘

ان کے مطابق ’افغانستان کی عبوری حکومت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے افغانستان میں امن قائم کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں جرائم کی شرح کم ہو چکی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک سے بدعنوانی ختم ہو چکی ہے۔ وہ معیشت کے بہتر ہونے کا بھی کہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ سب درست ہے تو پھر افغانستان میں امن پاکستان کے لیے ڈراونا خواب ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ جو لوگ افغانستان میں پناہ لے رہے ہیں وہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔‘

آصف درانی کے مطابق ’وزیراعظم نے بھی اسی بات کی نشاندہی کی ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان حملوں میں 65 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ہمارے لیے تشویش کی بات ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیراعظم نے جو کہا ہے اس سے وہ طالبان کی قیادت کو یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان یا تحریک طالبان میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔‘

ان کے مطابق ’افغانستان کی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ ہم اس حوالے سے ایکشن لے رہے ہیں۔ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا عملی اقدامات لیتے ہیں کیونکہ پاکستان افغانستان کے تعلقات کا انحصار ان اقدامات پر ہے۔‘

پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بدھ کو کہا تھا کہ چند افغان رہنماؤں کے غیر ضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات  کے بعد  پاکستان دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ معنی خیز ہے۔

انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت سے متعلق یہ غیر معمولی بیان بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے بعد افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور وزیر دفاع ملا یعقوب سمیت کچھ دیگر رہنماؤں نے اپنے بیانات میں سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ پاکستان کو اس فیصلے کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کی ممالک واپس بھیجنے کا پاکستان کو مکمل قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔

’اس ضمن میں چند افغان رہنماؤں کے غیر ضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات افسوس ناک ہیں۔‘

افغان حکومت کا رد عمل

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم کے مختلف دعووں پر ’ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح امارت اسلامیہ اپنے ملک افغانستان میں امن چاہتی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی امن کی خواہاں ہے۔‘

ایکس پر جاری ایک بیان میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔‘

تاہم ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’البتہ پاکستان کے اندر قیام امن امارت اسلامیہ کی ذمہ داری نہیں۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنے اندرونی مسائل خود حل کریں، اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار افغانستان کو قرار نہ دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان