سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کی مشروط اجازت

سپریم کورٹ نے بدھ کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ نے بدھ کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔

بدھ کے روز سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چھ رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل تھے۔

عدالتی فیصلہ پانچ ایک کی نسبت سے دیا گیا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

بدھ کو سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے الگ ہونے کی استدعا مسترد کر دی۔

ایڈووکیٹ اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’بینچ کی تشکیل پر اعتراض ہے اس لیے پہلے اس پر دلائل ہوں گے۔ پہلے یہ فیصلہ ہو گا کہ آپ بینچ میں بیٹھیں گے یا نہیں؟‘

بینچ کے سربراہ جسٹس سردار مسعود کو کہا گیا کہ ’آپ پر اعتراض ہے۔‘ تو انہوں نے کہا کہ ’کس کو اعتراض ہے؟‘

وکیل اعتزاز احسن نے بتایا کہ ’سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو اعتراض ہے۔‘

اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ جب جج پر اعتراض ہو تو جج کی صوابدید ہے کہ وہ خود کو بینچ سے الگ کرے یا نہ کرے، اس لیے میں خود کو بینچ سے الگ نہیں کر رہا۔‘

ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کے بولنے پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے؟ فریقین کو نوٹس ہوگا، تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے۔‘

جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں، اس لیے بول رہا ہوں۔‘

جسٹس سردار طارق نے قدرے برہمی سے کہا کہ ’کیا ہم کھڑے ہوکر کیس سنیں؟ بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے۔‘

تمام وکلا کے ایک ساتھ روسٹرم پر اکٹھے بولنے سے جہاں عدالت میں مچھلی منڈی کا ماحول بن گیا، وہیں عدالت بھی برہم ہو گئی، جس کے بعد بینچ کے سربراہ نے واضح کیا کہ جس درخواست گزار کا نام لیا جا رہا ہے، پہلے وہ سامنے آئیں۔

ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے نکتہ اٹھایا کہ ’عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔‘ جس پر جسٹس سردار طارق نے ان سے کہا کہ ’کیا ریلیف دے دیا ہے عدالت نے؟ آپ کے بھی علم میں ہے کہ اپیل میں جب معاملہ آتا ہے تو پروسیجر کیا ہے۔‘

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو دلائل شروع کرنے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ ’مناسب ہوگا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے، پہلے خواجہ حارث کو وقت دینا چاہتا ہوں۔‘

جس کے بعد وزارت دفاع کی جانب سے وکیل خواجہ حارث دلائل کے لیے روسٹرم پر آئے۔ 

خواجہ حارث نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ’دو لائن میں ایک قانون کی پورے سیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا۔‘

خواجہ حارث نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں پہلے ان دفعات کو برقرار رکھا گیا تھا، ایف بی علی کیس میں آٹھ رکنی بینچ کا فیصلہ تھا، حالیہ فیصلے میں پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے ان دفعات کو کالعدم قرار دیا، اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں بھی ان دفعات کو برقرار رکھا گیا۔‘

 جسٹس میاں محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ’آپ ملٹری کورٹس میں ہونے والے ٹرائل کو فئیر ٹرائل کو یقینی کیسے بنائیں گے؟‘ وزارت دفاع کے وکیل نے جواباً کہا کہ ’سویلین میں کلبھوشن یادو جیسے لوگ بھی آتے ہیں، آرمی ایکٹ میں سویلینز پر دائرہ اختیار پہلے ہی محدود تھا، سویلینز سے متعلق دفعات کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس سردار طارق مسعود نے وزارت دفاع کے وکیل سے کہا کہ ’ابھی ہمارے سامنے تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، کیا تفصیلی فیصلہ دیکھے بغیر ہم فیصلہ دے دیں؟‘ جس پر جسٹس عرفان سعادت نے بھی کہا کہ ’خواجہ حارث صاحب کیا تفصیلی فیصلے کا انتظار نہ کر لیں؟‘

خواجہ حارث نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’پھر میری درخواست ہو گی کہ ملٹری کسٹڈی میں جو لوگ ہیں ان کا ٹرائل چلنے دیں۔‘

جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ ’کل جو دہشتگ ردی کے حملے میں جوان شہید  ہوئے، اس میں جو سویلین شامل ہیں ان کا کیا بنے گا؟ کیا پہلے ملزمان کے ٹرائل مکمل ہوگئے تھے؟‘

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’کچھ ملزمان پر فرد جرم عائد ہوگئی تھی، کچھ پر ہونا تھی، بہت سے ملزمان شاید بری ہو جائیں، جنہیں سزا ہوئی وہ بھی تین سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ’آپ کو کیسے معلوم ہے کہ سزا تین سال سے کم ہوگی؟‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’کم سزا میں ملزمان کی حراست کا دورانیہ بھی سزا کا حصہ ہو گا۔ کل ملٹری کورٹس میں ٹرائل کالعدم ہونے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو سزائیں ختم ہو جائیں گی۔‘ جس پر خواجہ حارث نے اس دوران کہا کہ ’اگر ٹرائل چلنے دیا جاتا تو وقت ضائع نہ ہوتا۔‘

سردار لطیف کھوسہ نے حکم امتناع کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’جن ججوں نے ملٹری کورٹس فیصلہ دیا وہ بھی اسی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ ان کا ٹرائل کالعدم قرار دینے والا تفصیلی فیصلہ آیا نہیں اور ٹرائل دوبارہ کیسے چلے گا؟‘ اس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پھر یہ ایپلٹ عدالت بنی کیوں؟ سویلین والی دفعات تو کالعدم ہو گئیں۔ وہ دفعات کالعدم  نہ کرتے تو جو ہمارے بچوں کو شہید کر رہے ہیں ان کا کس قانون سے ٹرائل کریں؟‘ 

اٹارنی جنرل نے عدالت سے ملٹری کورٹس میں ٹرائل چلانے کی مشروط اجازت دینے کی استدعا کی، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ’ایک قانون کالعدم ہوچکا اس میں سے کیسے چیزیں نکال نکال کر ہم اجازت دیں؟‘

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جلدی یہ ہے کہ اس وجہ سے غیر ملکی دہشت گردوں کے ٹرائل بھی نہیں ہو پا رہے؟‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’گرفتار لوگ دہشت گرد ہیں تو بری کیوں کر رہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’یہ لوگ تو اپنے شہری ہیں، بس بھٹک گئے ہیں۔‘

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ نے نو مئی 2023 کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ رواں برس 23 اکتوبر کو سنایا تھا، جس میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ کے ایک ۔ چار کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو گا جبکہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

فیصلے کے بعد وفاق، وزارت دفاع، وزارت قانون، بلوچستان شہدا فاؤنڈیشن، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے معاملے پر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کردی تھیں۔

ان اپیلوں پر سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے آج (بروز بدھ) فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا، جو آج ہی سنایا گیا اور جس کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان