مولانا فضل الرحمٰن کی طالبان امیر ہبت اللہ سے ملاقات: رپورٹس

مولانا فضل الرحمٰن نے دورہ کابل سے قبل کہا تھا کہ وہ پاکستانی حکومت کا پیغام طالبان قیادت تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن (بائیں) کی افغانستان میں حکمران طالبان کے رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ (دائیں) سے ملاقات ہوئی ہے (اے ایف پی)

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی افغانستان میں حکمران طالبان کے رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات کی اطلاعات ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس ملاقات میں کن امور پر بات چیت کی گئی۔

مولانا فضل الرحمٰن سات جنوری کو افغانستان کے دورے پر روانہ ہوئے تھے، جس کے دوران وہ کابل کے بعد قندھار گئے تھے۔

بی بی سی پشتو کے مطابق قندھار میں طالبان حکومت کے ایک اہم ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے سربراہ نے مولانا فضل الرحمٰن سے قندھار میں ملاقات کی۔

ملاقات میں کن معاملات پر گفتگو ہوئی، اس حوالے سے دونوں طرف سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے، لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے دورہ کابل سے قبل کہا تھا کہ وہ پاکستانی حکومت کا پیغام طالبان قیادت تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

افغانستان کے ایک سرکردہ نیوز چینل طلوع نیوز نے بھی نامعلوم ذرائع کی حوالے سے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق: ’ایک ذریعے نے طلوع نیوز کو بتایا کہ پاکستان کی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے (بدھ کی) صبح قندھار میں امارت اسلامیہ کے رہنما مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات کی۔‘

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے، جو کافی عرصے سے قندھار میں ہیں، کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مولانا فضل الرحمٰن اتوار کو ایک وفد کے ہمراہ کابل پہنچے تھے، جہاں صدارتی محل میں مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے وفد نے طالبان کے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی تھی۔

مولانا فضل الرحمٰن وہ دوسرے غیر ملکی رہنما ہیں، جنہوں نے اب تک منظر عام پر نہ آنے والے طالبان رہنما سے ملاقات کی ہے۔ ان کے علاوہ قطری وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمن التانی ہیں جنہوں نے طالبان کے امیر سے ملاقات کی تھی۔

بلخ میں طالبان حکومت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس ملاقات کی تیاریاں بلخ کے گورنر یوسف وفا کی کوششوں سے کی گئی تھیں۔

یوسف وفا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کے قریبی شخص ہیں۔ بلخ سے پہلے وہ قندھار کے گورنر تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ذریعے کے مطابق اس ملاقات میں مولانا کے علاوہ پاکستانی وفد کے رکن مولوی ادریس نے بھی شرکت کی۔

طالبان حکومت اور پاکستان کی جمعیت علمائے اسلام پارٹی نے اس ملاقات کے بارے میں باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔

مولانا کے دورے سے بعض افغان خوش نہیں ہیں اور ان کے خلاف ایک پرانی ویڈیو بھی شییر کی گئی۔ 9 جنوری 2024 کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں جے یو آئی (ف) کے رہنما فضل الرحمن کے دورہ افغانستان کے موقع پر ان کے خلاف افغانستان میں احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

تاہم یہ ویڈیو دراصل جنوری 2015 میں ان کے دورے کی تھی۔

اس ملاقات سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو اہم قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات ’خطے میں استحکام قائم کرسکتے ہیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے وفد نے طالبان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے دو روز قبل ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے دورہ افغانستان کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہاں نیک خواہشات کا پیغام لے کر آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس سفر کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے پاکستانی وفد کو بتایا کہ ’افغانستان کا پاکستان سمیت کسی بھی ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کی اجازت دے گا۔‘

پاکستانی حکام کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کے افغانستان میں ’محفوظ ٹھکانے‘ ہیں اور ان کے مطابق وہ وہاں سے پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

لیکن طالبان حکام ہمیشہ ایسے دعوؤں کو ’بےبنیاد‘ قرار دیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے مسائل کو اندرونی سطح پر ہی حل کرنا چاہیے۔

خواتین کے خلاف افغان طالبان کا حالیہ کریک ڈاؤن

خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کابل میں کریک ڈاؤن کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد طالبان کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ حال ہی میں کابل میں متعدد خواتین کو خود کو مناسب طریقے سے نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں سکیورٹی اہلکار احسان اللہ ثاقب نے کابل کے مغربی علاقے دشت بارچی میں علمائے کرام کے ایک اجتماع کو بتایا کہ ’گذشتہ ایک ہفتے میں ہم نے خواتین پولیس کی مدد سے متعدد خواتین اور لڑکیوں کو حراست میں لیا ہے، جو حجاب کے بغیر تھیں۔‘

اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے طالبان حکام نے اسلام کی سخت تشریح نافذ کر رکھی ہے، جنہیں اقوام متحدہ نے ’صنفی امتیاز‘ کا نام دیا ہے۔

خامہ پریس اور آمو ٹی وی کی جانب سے ایکس پر پوسٹ کی گئی ویڈیو کے مطابق احسان اللہ نے منگل کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو اس لیے حراست میں لیا گیا کیونکہ وہ ’مکمل طور پر حجاب کے بغیر‘ تھیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’انہیں ان کے اہل خانہ کو مطلع کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا کہ ان کی بہن، بیٹی یا بیوی حجاب کے بغیر گھومتی ہیں اور انہیں ایسا کرنے سے روکنا چاہیے۔‘

دوسری جانب افغان وزارت برائے فروغ نیکی کے ترجمان عبدالغفار صباون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’خواتین پولیس اہلکاروں کی جانب سے خواتین کو حجاب پہننے سے زیادہ احترام اور وقار حاصل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی خاتون کی بے عزتی یا تذلیل نہیں کی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں ہماری حراست میں کوئی ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا