منی پور تشدد: دو خواتین کو انڈین پولیس خود ہجوم کی طرف لے کر گئی، رپورٹ

تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ انڈیا کی ریاست منی پور میں گذشتہ برس پولیس دو قبائلی خواتین کو ایک ہزار افراد کے اس ہجوم کی طرف لے کر گئی، جس میں شریک افراد نے انہیں برہنہ کیا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

24 جولائی 2023 کو لی گئی اس تصویر میں قبائلی مسلح رضاکار جنگجو انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں جاری نسلی تشدد کے دوران چورا چند پور ضلع میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر اپنے عارضی کیمپ کے قریب گشت کر رہے ہیں (ارون شنکر/ اے ایف پی)

تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ انڈیا کی ریاست منی پور میں پولیس دو قبائلی خواتین کو ایک ہزار افراد کے اس ہجوم کی طرف لے کر گئی، جس میں شریک افراد نے انہیں برہنہ کیا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

یہ واقعہ گذشتہ سال چار مئی کو ریاست منی پور میں میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان کشیدگی کے آغاز میں پیش آیا تھا اور سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو دو ماہ بعد منظر عام پر آئی تھی۔

وائرل فوٹیج کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غم و غصہ پھیل گیا، جس کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کیا اور منی پور میں تنازع شروع ہونے کے بعد اپنا پہلا بیان دیا تھا۔

اکثریتی ہندو میتی برادری کی جانب سے محفوظ قبائلی درجہ دینے کے مطالبے کے خلاف کچھ کوکیوں کے احتجاج کے بعد اقلیتی کوکی زو اور اکثریتی میتی برادریوں کے درمیان پرتشدد تنازعے کا آغاز ہوا تھا، جس کے بعد سے ریاست میں تقریباً 200 افراد مارے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال اکتوبر میں دائر چارج شیٹ میں انڈیا کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو پتہ چلا کہ تشدد سے بچ کر فرار ہونے والی دو خواتین اور ایک مرد پولیس کی گاڑی کے اندر بیٹھے اور محفوظ مقام تک پہنچانے کے لیے ان سے مدد لینا چاہ رہے تھے۔

تاہم انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پولیس عہدیداروں نے یہ کہتے ہوئے ان کی مدد نہیں کی کہ ان کے پاس گاڑی کی چابیاں نہیں ہیں۔

سی بی آئی نے چارج شیٹ میں کہا کہ ’وہ پولیس اہلکاروں سے بار بار مدد کی بھیک مانگتے رہے کہ وہ ان کی مدد کریں اور ہجوم کے حملے کے شکار ایک شخص کو بچائیں، لیکن ’پولیس نے ان کی مدد نہیں کی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جیسی (کار) کے ڈرائیور نے گاڑی چلائی اور تقریباً ہزار لوگوں کے پرتشدد ہجوم کے پاس اچانک گاڑی روک دی۔ متاثرہ مرد نے دوبارہ پولیس سے گاڑی سٹارٹ کرنے کی درخواست کی، لیکن اسے خاموش رہنے کے لیے کہا گیا۔

’کچھ دیر بعد ایک پولیس اہلکار آیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس شخص کی سانس رک گئی ہے۔‘

اس کے بعد ہجوم نے گاڑی کے اندر سے ’ایک متاثرہ مرد اور دو خواتین‘ کو باہر نکالا جبکہ ’پولیس اہلکار متاثرین کو ہجوم کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر موقعے سے چلے گئے۔‘

رپورٹ کے مطابق: ’انہوں (ہجوم) نے دونوں خواتین کے کپڑے پھاڑ دیے اور مرد کو پیٹنا شروع کر دیا۔‘

ڈی جی پی راجیو سنگھ نے اخبار کو بتایا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف ’محکمانہ کارروائی‘ کی گئی ہے۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق سی بی آئی نے اس کیس میں چھ ملزمان کے خلاف چارج شیٹ اور ایک جوان کے خلاف رپورٹ داخل کی۔

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ ’تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ میتیوں اور کوکیوں کے درمیان نسلی جھڑپوں کا حصہ بننے والے ملزمان نے میتی برادری کے نامعلوم شرپسندوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ مل کر تشدد، آتش زنی، جنسی حملے اور قتل سمیت کئی مجرمانہ کارروائیاں واضح ارادے کے ساتھ انجام دینے کی سازش کی تھی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا