قائد اعظم یونیورسٹی: مجید ہٹس کا ’کرائسس آملیٹ‘ کیا ہے؟

مجید ہٹس میں یوں تو بہت سارے کھانے بنتے ہیں جہاں طلبہ اور پروفیسرز کے علاوہ بڑی تعداد میں اولڈ قائدین اپنے خاندانوں کے ساتھ کھانا کھانے آتے ہیں مگر یہاں کی سب سے بہترین ڈش کرائسس آملیٹ ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ملک کی بہترین جامعہ، قائداعظم یونیورسٹی کا مجید ہٹس یہاں کا سب سے پرانا اور اہم مقام ہے۔

مجید ہٹس کے بانی حاجی مجید مرحوم کا تعلق ایبٹ آباد کے علاقے ککمنگ سے تھا جو یونیورسٹی کے قیام کے وقت اپنے گاؤں سے روزگار کے لیے اسلام آباد آئے تھے۔

مجید نے یونیورسٹی میں ایک ڈھابے سے بحیثیت ملازم کام شروع کیا اور جلد ہی ایک الگ چھوٹا سا ہوٹل قائم کر لیا۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری سے طلبہ اور اساتذہ کا دل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ مجید کی وفات کے بعد، ان کے بیٹے انیس مجید اس ڈھابے کو چلا رہے ہیں جہاں یونیورسٹی کے طلبہ، پروفیسرز، اور اولڈ قائدین نہ صرف کھانا کھانے آتے ہیں بلکہ یہاں ثقافتی میلے اور سٹڈی سرکلز بھی منعقد کرتے ہیں۔

منی پاکستان کہلائی جانے والی اس یونیورسٹی میں تمام وفاقی اکائیوں سے طلبہ پڑھنے آتے ہیں جو ان گنت خواب پلکوں پر سجائے اس مادرِ علمی میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اپنی محنت کے ذریعے مستقبل کی نامور شخصیات بن کے اُبھرتے ہیں۔

مجید ہٹس میں یوں تو بہت سارے کھانے بنتے ہیں جہاں طلبہ اور پروفیسرز کے علاوہ بڑی تعداد میں اولڈ قائدین اپنے خاندانوں کے ساتھ کھانا کھانے آتے ہیں مگر یہاں کی سب سے بہترین ڈش کرائسس آملیٹ ہے۔

انیس مجید نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کرائسس ڈش یہاں کی ایک خاص ڈش ہے جسے یہ نام طلبہ نے دیا۔‘

انیس بتاتے ہیں کہ جب یہ یونیورسٹی بنی تو اس کی کلاسوں کا وقت تین بجے تک ہوتا تھا تو عموماً ہوٹل پر کام کرنے کا وقت بھی تین بجے تک ہی ہوتا تھا تو چیزیں عموماً ختم ہو جاتی تھیں اور پھر اس کے بعد جو طلبہ آتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ جو بچا کھچا تھوڑا تھوڑا پڑا ہے اس سارے کو مکس کریں اور اسے انڈے میں ملا کے دے دیں تو وہ ایک بڑی منفرد ڈش بنا تو آہستہ آہستہ لوگ اتنا پسند کرنے لگے کہ وہ باقاعدہ مینیو کا حصہ بن گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انیس بتاتے ہیں ’اس کے بعد ہم نے اس ڈش کو  مزید بہتر کیا اور اس میں نئی چیزیں ڈالی جس سے اس کا ایک منفرد ذائقہ بن گیا ہے کہ اب تو لوگ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور سب سے زیادہ کھائی جانے والی ڈش بھی ہے۔‘

سید داود باچا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مجید ہٹس میں بننے والی یہ ڈش ذائقے اور لذت کے ساتھ سستی بھی ہے۔ باچا کہتے ہیں کہ کیوں کہ یہاں پر زیادہ تر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوتے ہیں لہذا وہ کم قیمت پر کرائسس ڈش شوق سے کھاتے ہیں کیونکہ اس میں تمام کھانوں کا ذائقہ شامل ہوتا ہے اور محدود بجٹ والے طلبہ کے لیے معقول بھی ہے۔

طالبہ زنیرہ آصف نے مجید ہٹس کے دوستانہ اور مددگار سٹاف کی تعریف کی۔ زنیرہ بتاتی ہیں کہ مجید ہٹس میں طلبہ، فیکلٹی سٹاف کے علاوہ اولڈ قائدین کی ایک بڑی تعداد اپنے دوستوں یا فیملی ممبرز کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارنے اور کھانا کھانے آتی ہے۔ 

 زنیرہ کے بقول ’اگر طلبہ کے پاس پیسے نہ ہوں یا کوئی اور مالی مسئلہ ہو تو مجید ہٹس والے ان کے ساتھ کھل کر تعاون کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہٹس کا ماحول، خوبصورت کھانا اور ماضی کی یادوں کی تازگی، مجید ہٹس کو خاص بناتی ہے۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا