پاکستانی کوہ پیما جن کی انگلیوں کے فراسٹ بائٹ کا علاج سپین میں ہوا

غلام مرتضی نے بتایا کہ آٹھ ہزار میٹر کے اونچائی پر جب وہ 30 کلو سامان اپنے جسم پر باندھ کر ایک امریکی کوہ پیما کے ساتھ اوپر لے جا رہے تھے تو براڈ پیک پر انہیں حادثہ پیش آیا جس سے ان کی چھ انگلیاں ’فراسٹ بائٹ‘ کی وجہ سے برف میں جل گئیں۔

پہاڑوں کو سر کرنے کے لیے کوہ پیماؤں کی مدد کرنے والے ہائی آلٹیچیوڈ پورٹر غلام مرتضی کی گذشتہ سال ایک حادثے میں چھ انگلیاں ضائع ہوگئیں جن کا علاج سپین میں ایک ہسپانوی کوہ پیما نے کرایا۔

غلام مرتضیٰ کا تعلق  سکردو کے علاقے سدپارہ سے ہے جو 2021 سے کوہ پیماؤں کی مدد کرنے کے لیے ہائی آلٹیچیوڈ پورٹر کا کام کررہے تھے لیکن اب وہ یہ کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے غلام مرتضی نے بتایا کہ گذشتہ سال جولائی میں آٹھ ہزار میٹر کے اونچائی پر جب وہ 30 کلو سامان  اپنی جسم پر باندھ کر ایک امریکی کوہ پیما کے ساتھ اوپر لے جا رہے تھے تو براڈ پیک پر انہیں حادثہ پیش آیا جس سے ان کی چھ انگلیاں ’فراسٹ بائٹ‘ کی وجہ سے برف میں جل گئیں۔

’فراسٹ بائٹ ایک ایسی بیماری ہے جہاں آپ کی جلد سرد موسم یا ٹھنڈے پانی میں رہنے کے دوران جم جاتی ہے۔ فراسٹ بائٹ کی علامات میں متاثرہ مقام کا بے حس ہو جانا، سوجن، چھالے اور کالی جلد شامل ہو سکتی ہے۔‘

بقول غلام مرتضی براڈ پیک کی اونچائی  لگ بھگ آٹھ ہزار 47 میٹر تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا دو کوہ پیما آسٹریلوی بھائیوں نے ان کی جان بچائی جو انہیں دوسرے دن بیس کیمپ میں لائے۔

غلام مرتضی کہتے ہیں کہ دو آسٹریلوی کوہ پیما بھائیوں نے اپنی مہم ادھوری چھوڑ کر انسانی ہمدردی کے بنا پر ان کی جان بچائی۔

غلام مرتضیٰ نے بتایا اگلے دن خود وہ کیمپ تھری آئے اور ادھر سے پاکستان فوج کے جوانوں نے انہیں ریسکیو کرکے سکردو سی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا جہاں ان کا آٹھ دن تک علاج جاری رہا جس کے بعد انہیں ان کے گاؤں سدپارہ بھیجا گیا۔

غلام مرتضی علاج کے لیے سپین کیسے گئے؟

غلام مرتضی نے بتایا کہ کہ جب گھر میں وہ دیسی علاج کر رہے تھے تو اسی دوران  سپین کے کوہ پیما ایلکس سیکون کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی کہ وہ فورا اسلام آباد پہنچ جائیں جہاں سے انہیں ہسپانوی کوہ پیما اپنے ذاتی خرچے پر تین ماہ کے لیے سپین لے گئے اور وہاں علاج کرایا۔

غلام مرتضی علاج کے بعد اب حال ہی میں پاکستان پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے بتایا کہ اگر ان کا علاج بر وقت نہ ہوتا تو ان کے جسم کو کینسر لگنے کا خطرہ بھی تھا۔

انہوں نے ہسپانوی کوہ پیما سمیت سپین کی حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کا علاج بروقت کرا کے ان کی زندگی بچائی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی