ملیے سی آئی اے میں خواتین کے کردار کی محقق زنیرا خان سے

سی آئی اے میں خواتین کے کردار پر ریسرچ کرنے والی زنیرا خان نے بہاول پور سے مانچسٹر جا کر اپنی منفرد تحقیق مکمل کی۔

ملیے زنیرا خان سے جن کا تعلق بہاول پور سے ہے اور انہوں نے حال ہی میں مانچسٹر کی سیلفرڈ یونیورسٹی سے انٹیلیجینس کے شعبے میں منفرد تحقیق  مکمل کی ہے۔

ان کی یہ تحقیق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے میں سرد جنگ سے پہلے اور بعد میں، خواتین کے کردار کے بارے میں ہے۔ زنیرا کے بقول ان سے قبل ایسی تحقیق کسی جنوبی ایشیائی خاتون نے نہیں کی۔

لندن میں انڈپینڈنٹ اردو کے کے لیے زنیرا خان سے زھرا فاطمہ نے تفصیلی انٹرویو کیا۔

زھرا فاطمہ: کس چیز نے متحرک کیا کہ آپ پاکستان میں بہاول پور سے برطانیہ آئیں یہ ماسٹرز پڑھنے کے لیے؟

زنیرا خان: ایک بڑا مشہور قول ہے جو میں نے پڑھا آسکر وائلڈ کا۔ بہت سی چیزیں ہیں جو خواتین کے لیے اس دنیا میں مردوں سے بہتر ہیں لیکن بہت سے چیزیں ہیں جو خواتین کے لیے ممنوع ہیں۔

تو یہ ان شعبوں میں سے ہے جن کا تعلق خصوصاً مردوں سے ہے کہ وہ آپریشنل میدانوں میں جا سکتے ہیں اور اس طرح سے ایسے شعبے خواتین کے لیے خاص نہیں۔

میں نے اپنی تحقیق کربلا کی خواتین کے نام کی ہے۔ میں اس دور میں ان کی جرات سے متاثر ہوئی جب وہ مذہب کے لیے لڑیں اور مذہب کی ترقی کے لیے لڑیں۔

جب وہ جنگ کے میدانوں میں لڑ سکتی ہیں تو خواتین کہیں بھی لڑ سکتی ہیں۔ تو اس نے ایک وقت میں مجھے متاثر کیا۔

اس لیے میں نے اپنی تحقیق ان کے نام کی اور ابھی انٹیلیجینس میں خواتین کے کردار پر تحقیق کی۔

زھرا فاطمہ: آپ کی تحقیق خصوصاً کس چیز پر مرکوز ہے؟

زنیرا خان: میری تحقیق کے ایریا کا فوکس انٹیلیجینس میں خواتین کا کردار ہے جس میں سرد جنگ اور بعد کے دور میں سی آئی اے پر خاص فوکس ہے۔

میں نے اس لیے تحقیق کی کہ بہت دلچسپ بات ہے کہ سرد جنگ کے دوران خواتین نے آپریشنل لیول پر بہت اہم کردار ادا کیا اور حکمت عملی میں بھی۔

تاہم انہیں کلرکی کے کاموں میں دھکیلا جا رہا تھا اور تراسی فیصد خواتین کلرکی کے کام کر رہی تھیں۔

سی آئی اے میں بہت اچھی پروفائل ہونے کے باوجود اور برطانوی انٹیلیجینس میں بھی یہی معاملات تھے۔

البتہ حالیہ ادوار میں چیزیں بدل گئی ہیں اور اب انہیں اونچے عہدے مل رہے ہیں۔

لیکن جب جنوبی ایشیا جیسے خطوں کی طرف آئیں تو ابھی تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ انہیں ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں دیا گیا۔

زھرا فاطمہ: ہم ہمیشہ عالمگیریت کی طرف بڑھتی دنیا میں رہتے ہیں اے آئی ٹیکنالوجی کے ابھرنے اور جعلی خبروں اور غلط معلومات کے ساتھ۔ آپ کے شعبے کے ماہرین کو کیا چیلنجز درپیش ہیں اور وہ ان پر کیسے قابو پا رہے ہیں؟

زنیرا خان: بہت سے چیلنجز ہیں جن کا ایک ماہر کو سامنا ہوتا ہے آج کے ہائبرڈ طرز جنگ اور ففتھ جنریشن جنگ کے دور میں ڈیٹا کی وجہ سے ہر کوئی خطرے میں ہوتا ہے جو مختلف زرائع سے آتا ہے جب ڈارک ویب کی بات ہو اندرونی ذرائع کھلے ذرائع اور کھلا ویب۔ بڑے حجم کا ڈیٹا ہوتا ہے جس کے تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے لیے شراکت داری ہونی چاہیے اے آئی ٹولز اور طریقوں اور انسانی انٹیلیجینس کے مابین تاکہ انسان اور مشینیں اکٹھے کام کر سکیں کیونکہ مشینیں خاص مقدار میں ڈیٹا کی چھانٹی ہی کر سکتی ہیں لیکن تجزیہ انسانوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔

آفات سے نمٹنے کی طرف آئیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی بحران کی طرف آئیں اور ایسی جنگوں کی طرف جن کا تعلق پانی سے ہے۔

ہائیڈرو جنگیں اور جب دہشت گردی کی طرف آئیں تو پوری دنیا کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ دنیا کے لیے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ دنیا اب عالمگیریت پر مبنی ہے۔ چنانچہ کسی ایک ملک کو درپیش خطرہ دوسرے ملک کے لیے بھی خطرہ ہے۔

زھرا فاطمہ: عالمی حصہ داروں کا اکٹھے ہو کر ان مشترکہ خطرات سے نمٹنا کتنا اہم ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زنیرا خان: انٹیلیجینس شیرنگ اہم ہے جب مشترکہ خطرات سے نمٹنے کی طرف آئیں۔ تاہم یہ براعظم پر منحصر ہے۔

خطوں پر منحصر ہے کہ کون سے ممالک اشتراک کر رہے ہیں۔ مثلاً اگر ہم ایران عراق اور شام کی مثال دیں انہوں نے یمن کی جنگ میں انٹیلیجینس کی بنیاد پر شراکت کی۔

اسی طرح ہم فائیو آئیز کی بات کر سکتے ہیں۔ وہ شراکت کر رہے ہیں کیونکہ وہ مشترکہ خطرات سے نمٹ رہے ہیں۔

اسی طریقے سے ہم دیگر بہت سے ملکوں کی بات کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے اتحادیوں سے شراکت کی جب وہ مشترکہ چیلنجز کا سامنا کر رہے تھے۔

تاہم خطوں اور ریاستوں کو پہلے قومی مفاد کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ تمام ریاستوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ نہیں ہوتا۔

زھرا فاطمہ: اور آخر میں آپ کافی حد تک اس شعبے میں پہل کرنے والی ہیں۔ میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ کے مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟

زنیرا خان: میں یہی کہنا پسند کروں گی کہ میں نے ایک دفعہ پڑھا کہ وہاں نہ جائیں جہاں راستہ لے جائے بلکہ وہاں جائیں جہاں کوئی راستہ نہ ہو اور نقش راہ چھوڑ دیں۔

میں اور زیادہ تحقیق کرنا چاہوں گی اور میں مستقبل کی نسل کی آواز بننا پسند کروں گی اور ان لوگوں کے لیے جو یہ مضمون رکھنے کے لیے برطانیہ اور امریکہ نہیں آ سکتے اور متعلقہ شعبے میں کیریئر پروان نہیں چڑھا سکتے۔

میں ان سب کے لیے نقش راہ بنانا چاہتی ہوں اور میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں جو اس شعبے میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں اور ان راہوں پر بکھرے ہیں جن پر کم سفر ہوا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین