پاکستان کے انتخابی نتائج اور انڈیا کے ساتھ تعلقات

پاکستان کے سویلین رہنماؤں میں نواز شریف واحد سیاسی شخصیت ہیں جن کا انڈیا میں مثبت خیر مقدم کیا جاتا ہے، لیکن کیا ان کے سیاسی جانشینوں کی کمزور حکومت انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر سکے گی؟

 25 دسمبر 2015 کو جاری کی گئی اس تصویر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی لاہور میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے ہاتھ ملارہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب نواز شریف سے ملاقات کے لیے اچانک پاکستان کا دورہ کیا (PIB / AFP)
 

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں گذشتہ چند سالوں سے ایک طوفان برپا ہے اور طاقت کے جاری کھیل نے کئی سیاسی اور ادارہ جاتی فریقین کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔

 توقع کی جا رہی تھی کہ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے سیاست میں غیر یقینی کی صورت حال کی دھول بیٹھ جائے گی۔ اسی وجہ سے ان انتخابات پر نہ صرف پاکستان بلکہ آس پڑوس کی بھی نظر تھی۔

خاص طور پر پاکستان کی سیاسی صورت حال اور انتخابی نتائج کو ملک کے مشرقی ہمسایہ ملک انڈیا میں گہری دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔

انڈین حکومتوں اور دانشوروں نے روایتی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سخت گیر رجحانات کو اس کی فوج کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس حوالے سے انڈین پنڈتوں نے ہمیشہ پاکستان کی سویلین اشرافیہ کے حوالے سے نرم گوشہ برقرار رکھا ہے۔

پاکستان کے سویلین رہنماؤں میں نواز شریف واحد سیاسی شخصیت ہیں جن کا انڈیا میں مثبت خیر مقدم کیا جاتا ہے۔

 ماضی کے انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ نواز شریف کے تعلقات اور 1999 میں ’بس ڈپلومیسی‘ نے ان کی شبیہ دونوں ممالک کے درمیان امن کے معمار کے طور پر پیش کی۔

مزید برآں، نواز شریف کی امن کی کوششوں کو سویلین بالادستی کو مستحکم کرنے اور ملک کی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی سازی میں پاکستانی فوج کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا گیا۔

انہی اختلافات کے نتیجے میں اکتوبر 1999 میں ایک بغاوت کے ذریعے نواز شریف کو برطرف کر دیا گیا۔

اسی طرح 2013 میں نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ انہیں انڈیا کے ساتھ امن کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اپنی تیسری وزارت عظمیٰ کے دور میں نواز شریف نے ایک بار پھر انڈیا کے ساتھ روابط شروع کیے اور موجودہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ قریبی ذاتی تعلقات کو فروغ دیا۔

اس تعلقات کا ذاتی پہلو اس وقت نمایاں ہو گیا جب مودی نے نواز شریف کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔

 نواز اور مودی کی اس دوستی کو پاکستان میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان سمیت انڈیا کی اہم اپوزیشن جماعت کانگریس کی صفوں سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

دریں اثنا، اس دوران نواز شریف پر پاکستان کے اندر قوم پرست اور فوج نواز حلقوں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ وہ انڈیا کے لیے نرم گوشہ اختیار کر رہے ہیں۔

یہ دلیل دی گئی کہ نواز شریف کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اجاگر کرنے میں ناکامی کے علاوہ بلوچستان سے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے حوالے سے بھی خاموش رہے۔

2018  میں جب عمران خان اقتدار میں آئے تو انڈیا میں انہیں فوج کا منتخب کردہ شخص سمجھا جانے لگا۔

اس پس منظر میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران پاکستان انڈیا تعلقات مسلسل خراب ہوئے اور 2019 کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان ایک فضائی جھڑپ بھی ہوئی جس کے نتیجے میں انڈین فضائیہ کا ایک طیارہ مار گرایا گیا اور اس کے ایک پائلٹ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

عمران خان نے انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف بھی سخت موقف اختیار کیا اور مودی حکومت کی ہندو قوم پرست پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کی۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی کردار بدل گئے ہیں۔

 آج عمران خان فوج سے تعلقات اچھے نہیں اور ان کی فوجی قیادت کے ساتھ سخت محاذ آرائی چل رہی ہے اور کم از کم ان کے حامیوں اس کو سویلین بالادستی کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دوسری جانب نواز شریف نے فوج کے ساتھ مفاہمت کر لی ہے اور اب وہ ملکی سیاست میں فوج کی مداخلت کو چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

 2024 کے انتخابی نتائج سے واضح طور پر ظاہر ہو گیا ہے کہ عمران خان ایک سیاسی قوت ہیں جبکہ نواز شریف کی سیاست زوال پذیر ہے، خاص طور پر جب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے حق میں وزیر اعظم کی دوڑ سے دستبرداری اختیار کی۔

انڈیا کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک طرف سیاسی طور پر کمزور نواز شریف اور ان کے سیاسی وارث ہیں جن کی دلچسپی اب بھی انڈیا کے ساتھ امن قائم کرنے میں ہو سکتی ہے لیکن ان کے پاس روایتی عوامی حمایت اور قانونی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا انہیں طاقتور حلقوں کی جانب سے دباؤ آنے کا خطرہ ہے۔

دوسرے متعلقہ سیاسی کھلاڑی عمران خان ہیں، جو ملک کی فوج سے اختلافات کے باوجود پاکستانی قوم پرستی کے ساتھ بھی مضبوطی سے وابستہ ہیں، لہٰذا ان کی جانب سے انڈیا کے متعلق میں نرم رویہ اپنانے کا امکان نہیں ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ انڈیا کے حوالے سے ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کرنے والی اہم سٹیک ہولڈر بنی ہوئی ہے اور انتخابی نتائج نے مزید تصدیق کر دی ہے کہ یہ صورت حال کم از کم قلیل سے درمیانی مدت تک برقرار رہے گی۔

اس طرح انڈین حکومت چپکے سے باہمی تعلقات کو دیکھتی رہے گی اور محتاط حکمتِ عملی جاری رکھے گی۔

(بشکریہ عرب نیوز)

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر