فیکٹ چیک: کیا خیبر پختونخوا میں پناہ گاہیں واقعی بند ہوئی تھیں؟

سوشل میڈیا پر گذشتہ کچھ روز سے تاثر مل رہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بننے کے بعد صوبے میں پی ٹی آئی دور میں قائم کی جانے والی پناہ گاہیں دوبارہ کھول دی گئی ہیں۔

29 جنوری 2024 کی اس تصویر میں پشاور کی پناہ گاہ میں مسافر کھانا کھا رہے ہیں (سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا فیس بک)

سوشل میڈیا ویب سائٹس ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور فیس بک پر گذشتہ چند روز سے تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں علی امین گنڈا پور کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد خیبر پختونخوا میں پناہ گاہیں دوبارہ بحال ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ 

ان تصاویر میں لوگوں کو دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھاتے دیکھا جا سکتا ہے اور بعض سوشل میڈیا صارفین ان تصاویر کا تعلق پشاور کے علاقے پجگی میں موجود لنگر خانہ سے جوڑ رہے ہیں۔

اسی خبر کی کھوج لگانے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے عمران خان کے دورِ حکومت میں خیبر پختونخوا میں بے گھر افراد کے لیے قائم کی جانے والی پناہ گاہوں، جو پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بند کر دی گئی تھیں، کا سٹیٹس جاننے کے لیے متعلقہ سرکاری حکام سے گفتگو کی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں احساس پروگرام کے تحت پورے ملک میں تقریباً 50 پناہ گاہیں قائم کی گئی تھیں، جہاں دو وقت کا کھانا، رہائش اور بستر بغیر کسی معاوضے کے فراہم کیے جاتے تھے۔ مسافر ان پناہ گاہوں میں لگاتار تین دن تک قیام کر سکتے تھے۔ 

ان تصاویر کی حقیقت کی کھوج کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کو اندازہ ہوا کہ بعض سوشل میڈیا صارفین دو مختلف منصوبوں کو خلط ملط کر کے معاملے کو درست طریقے سے سمجھ نہیں پا رہے، جن میں ایک وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کے تحت چلنے والی پناہ گاہیں اور دوسرا خیبر پختونخوا حکومت کا بالکل الگ منصوبہ تھا۔

احساس پروگرام کے تحت خیبر پختونخوا میں 2022 تک آٹھ پناہ گاہیں قائم کی گئی تھیں اور ان کی مالی اور انتظامی ذمہ داریاں پاکستان بیت المال کے حوالے تھیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا میں محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت 2020 میں 11 پناہ گاہیں قائم کی گئیں، جن کی فنڈنگ صوبائی حکومت فراہم کرتی تھی۔ 

صوبائی حکومت کے زیر انتظام چلنے والی پناہ گاہیں 2020 میں نافذ ہونے والے ’خیبر پختونخوا پناہ گاہ ایکٹ‘ کے تحت قائم کی گئی تھیں۔ 

پناہ گاہوں کی فنڈنگ کا انتظام کرنے کے لیے اس قانون کے تحت ایک ویلفیئر بورڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، جبکہ صوبائی محکمہ سوشل ویلفیئر ان کی دیکھ بھال کا ذمہ دار تھا۔

 یہ 11 پناہ گاہیں پشاور، ایبٹ آباد، کوہاٹ، مردان، چارسدہ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، سوات، صوابی، مانسہرہ، اور لوئر دیر میں قائم کی گئی تھیں۔

بند پناگاہیں

اب سوال یہ ہے کہ صوبے میں کون سی پناہ گاہیں بند کی گئی تھیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپریل 2023 میں پاکستان بیت المال نے خیبر پختونخوا میں احساس پروگرام کے تحت چلنے والی آٹھ پناہ گاہیں فنڈز کے مسائل کی وجہ سے بند کر دی تھیں۔ 

بیت المال کے تحت چلنے والی دو پناہ گاہیں پشاور میں قائم تھیں جو بند ہوئیں جب کہ باقی دیگر بڑے شہروں جیسے ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم پناہ گاہوں کے دروازے بھی بند کر دیے گئے، تاہم خیبر پختونخوا حکومت کے تحت چلنے والی 11 پناہ گاہیں بند نہیں کی گئیں۔ 

خیبر پختونخوا سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نور محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت چلنے والی پناہ گاہیں کبھی بند نہیں ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ پناہ گاہیں بحال ہیں اور مسافروں کو رہائش اور کھانے پینے کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ 

سوشل میڈیا پر چلنے والی تصاویر پجگی پناہ گاہ کی اور 24 فروری 2024 کو بنائی گئی تھیں، جن میں مسافروں کو کھانا فراہم ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے محکمہ سوشل ویلفیئر کے فیس بک پیج کا جائزہ لیا تو وہاں بھی گذشتہ دو تین سالوں کے دوران پناہ گاہوں میں لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی کی تصاویر شیئر کی جاتی رہی ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان