تحریکِ انصاف کا ستارہ مسلسل گردش میں

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں تحریک انصاف کے بعض سرکردہ رہنما پیدا شدہ صورت حال کو اپنے ہی لوگوں کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے حامی 17 فروری 2024 کو کراچی میں عام انتخابات کے نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (رضوان تبسم/ اے ایف پی)

دو اپریل کو سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں جب کہ 21 اپریل کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ اتحادی جماعتیں اپنے مقرر کردہ کوٹے سے زائد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کے 22 حلقوں میں کامیاب ارکان اسمبلی کے نتائج کو ازسرِ نو گنتی کے مرحلے سے گزار کر ان کے کامیاب نتائج کو کالعدم قرار دے رہا ہے۔

اس کا قانونی پس منظر یہ ہے کہ انتخابات کے حتمی نتائج کو ریٹرننگ آفیسران الیکشن ایکٹ کی دفعہ 95 کے تحت تیار کرتا ہے اور اس دوران متاثرہ فریق ازسرِنو گنتی کا مطالبہ کرے تو ریٹرننگ آفیسران کو یہ اختیار ہے کہ اگر کامیاب امیدوار اور ہارنے والے امیدوار کے ووٹوں میں دس ہزار ووٹ کا فرق ہے تو وہ حتمی نتیجہ بھجوانے سے پہلے ازسرِ نو گنتی کا حکم دے سکتا ہے۔

یہ نئی شق الیکشن ایکٹ 2017 میں شامل کی گئی تھی اور جب اس پر قانون سازی ہو رہی تھی تو میں نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار کو تجویز دی تھی کہ ووٹوں کا فرق جہاں 1500 کے لگ بھگ ہو تو ازسرِ نو گنتی کروائی جائے لیکن کمیٹی نے دس ہزار کا فرق آنے پر ازسرِ نو گنتی کا قانون منظور کر لیا۔

اب چونکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 98 کے تحت حتمی نتائج جاری ہو چکے ہیں اور قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے تشکیل پانے کے بعد حکومت سازی بھی مکمل ہو چکی ہے تو اس دوران بعض حلقوں میں ازسرِ نو گنتی کروانے کے احکامات جاری ہو رہے ہیں جب کہ انتخابی ٹربیولز کا قیام بھی مکمل ہو چکا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ نو بڑی اہمیت کی حامل ہے اور میں نے ابتدا سے ہی بتا دیا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ نو کے تحت الیکشن کمیشن کسی حلقے میں بدعنوانی، دھاندلی اور کرپٹ پریکٹس کے تحت شکایات وصول کرتا ہے تو انتخابی کمیشن 60 روز کے اندر اندر ایسی شکایات پر بعض پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا مجاز ہے اور ازسر نو گنتی کے احکامات بھی دے سکتا ہے۔

اگر ان شکایات کا 60 روز کے اندر فیصلہ نہ ہو سکے تو تمام کیسز الیکشن ٹربیونلز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

الیکشن کمیشن اس ایکٹ کی دفعہ نو کے تحت بعض حلقوں میں ازسر نو گنتی یا پھر پولنگ کے احکامات جاری کر رہا ہے جو قانون کے مطابق ہے۔ یہ دفعہ سات مارچ 1977 کے الیکشن کے خلاف احتجاج کو روکنے کے لیے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شامل کرائی تھی تاکہ شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریکِ انصاف اندرونی انتشار کا شکار

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مختلف مقدمات میں گھِرے ہوئے ہیں اور ان کے وکلا، جماعت کے دیگر رہنما اپنے اپنے سیاسی مفادات میں مبتلا ہیں اور پارٹی کا شیرازہ بکھرتا نظر آ رہا ہے۔

خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں باہمی ریشہ دوانیوں، اختلافات اور پارٹی کے بانی سے رابطے کے فقدان کی وجہ سے پارٹی کا ڈھانچہ منتشر ہو جائے گا اور چونکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکان کی بڑی تعداد بھی اتحاد کونسل کا حصّہ بن چکے ہیں لہٰذا ایسے اراکان جو سنی اتحاد کونسل کے موقف کو کمزور کریں گے وہ بتدریج ایسے اراکان کے خلاف ضابطہ کی کارروائی کرتے ہوئے جماعت سے نکال دیں گے اور ان کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔

سنی اتحاد کونسل پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جو 2001 میں قائم کی گئی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں تحریک انصاف کے بعض سرکردہ رہنما پیدا شدہ صورت حال کو اپنے ہی لوگوں کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے سنی اتحاد کونسل سے غیر رسمی طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ کونسل سے اتحاد ان کی پارٹی کی غلطی تھی جس کا خمیازہ وہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔

تحریکِ انصاف کا ستارہ مسلسل گردش میں جا رہا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے ان کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی تسلیم نہ کیا جائے اور سپیکر قومی اسمبلی سنی اتحاد کونسل میں شامل اراکان کو لیڈر آف اپوزیشن تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی رولنگ سے ان کو بےدست و پا کر دیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر