داعش دوبارہ جنگ کے راستے پر

ایسا لگتا ہے کہ داعش خراسان بڑے پیمانے پر اموات کا سبب بننے والے کے حملوں، متعدد زبانوں میں تند و تیز پراپیگنڈے اور دشمنوں کے خلاف تشدد کو اکسا کر خود کو حریف تنظیموں سے ممتاز کرنا چاہتی ہے۔

23 مارچ 2024 کو ویڈیو گریب سے لی گئی تصویر جس میں روسی امدادی کارکن شدت پسندوں کے حملے کے بعد کام کر رہے ہیں (اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے روسی دارالحکومت ماسکو میں عوامی تقریب کے دوران کیے گئے قتل عام میں 140 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

حالیہ برسوں میں یہ سب سے بڑی دہشت گردی تھی جو ایران میں قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی قبر ہر قتل عام کے ایک واقعے کے محض چند ہفتے بعد کی گئی۔

داعش کے ترجمان نے 2014 میں تنظیم میں توسیع کے مرحلے کے 10 سال مکمل ہونے پر پیغام میں تازہ حملوں پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنی بات سننے والوں پر زور دیا کہ وہ دنیا بھر میں اس تنظیم کے متعدد دھڑوں میں شامل ہونے کے لیے نقل مکانی کریں۔ ترجمان نے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی حملوں پر اکسایا۔

مبصرین نے متنبہ کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم عالمی دہشت گردی کی پھیلتی ہوئی سرگرمیوں کی نئی لہر کا سامنا کر رہے ہوں۔ خاص طور پر جرمنی، آسٹریا، نیدرلینڈز، فرانس اور ترکی جیسے ملکوں میں منصوبوں کو ناکام بنانے سمیت دہشت گردی سے متعلق درجنوں تازہ گرفتاریوں کے بعد یورپی حکومتیں چوکسی کے معاملے میں کئی سال کی بلند ترین سطح پر منتقل ہو چکی ہیں۔

دہشت گردی کے بہت سے بڑے منصوبوں کا ذمہ دار قرار دیے جانے والے گروپ کو داعش خراسان یا داعش- کے، کہا جاتا ہے۔

اس گروپ کا ٹھکانہ افغانستان میں ہے اور وہ پورے وسطی اور جنوبی ایشیا میں سرگرم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس شاخ نے وسطی ایشیائی تارکین وطن کی بھرتی کو ترجیح دے کر سکیورٹی نظام کی خامیوں کا فائدہ اٹھایا۔

یہ تارکین وطن ویزے کی کم از کم شرائط کی بدولت روس اور ترکی جیسی ریاستوں کے درمیان سفر کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ماسکو یوکرین کے قتل عام میں لاکھوں افراد کو کھونے کے بعد اپنی لیبر فورس کو پورا کرنے کے لیے بےچین ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ داعش کی اس شاخ نے لوگوں کو بھرتی کرنے کے لیے وسطی ایشیائی تارکین وطن گروپوں کو ہدف بنایا ہے۔ اس ضمن میں داعش نے سکیورٹی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا۔

یہ لوگ چند ویزا پابندیوں کی بدولت روس اور ترکی جیسے ممالک کے درمیان منتقل ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر ان حالات میں کہ جب ماسکو، یوکرین پر حملے میں ہونے والے لایعنی قتل عام میں لاکھوں کارکنوں کو کھو دینے کے بعد محنت کشوں کی کمی پوری کرنے کے لیے بے چین ہے۔

یوکرین کی جنگ کے دوران روس کی وسیع  سکیورٹی سروسز نے اپنا اصل مقصد چھوڑ دیا۔ انہیں فائدہ مند طور پر استعمال کرنے کی بجائے ولادی میر پوتن کے سیاسی حریفوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے استعال کیا گیا۔

کریملن کے لیے اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ تھی کہ اسے اپنے روایتی دشمن سی آئی اے کی جانب سے پیشگی مخصوص خفیہ اطلاعات فراہم کی گئیں۔ اس بعد کریملن نے (ماسکو میں ہونے والی دہشت گردی) کا الزام بھونڈے انداز میں امریکہ اور یوکرین کے سر تھوپ دیا۔

تاجکستان سے تعلق رکھنے والے حملے کے ملزمان پر خلاف معمول بہیمانہ تشدد کیا گیا اور اس کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی جس سے روس میں مایوسی کا شکار مسلمان اقلیت کی ناراضی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ اس طرح کی بدسلوکی کو داعش کے پروپیگنڈے میں تیزی سے استعمال کیا گیا تاکہ مزید ’قتل عام‘ کی راہ ہموار کی جا سکے۔

ایسا لگتا ہے کہ داعش خراسان بڑے پیمانے پر اموات کا سبب بننے والے کے حملوں، متعدد زبانوں میں تند و تیز پراپیگنڈے اور دشمنوں کے خلاف تشدد کو اکسا کر خود کو حریف تنظیموں سے ممتاز کرنا چاہتی ہے۔

اگرچہ طالبان نے افغانستان کے اندر داعش کی کارروائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ داعش خود کو عالمی سطح پر مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندی کے بڑے حامی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

ایک ہی ماخذ سے تعلق کے باوجود طالبان اور داعش ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو ’بکاؤ مال‘ یا ’انتہاپسند‘ قرار دے کر مذمت کرتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف خوفناک حملے کرتے رہتے ہیں۔

کئی سال سے داعش عوام کی نظروں سے اوجھل دکھائی دیتی ہے اور عراق اور شام میں اس کی سابقہ ’خلافت‘ میں ہر سال حملوں میں کمی آ رہی ہے اور متعدد رہنماؤں کی موت واقع ہوئی ہے۔

تاہم حال ہی میں شام میں داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا، بشمول اس سال جنوری میں 10 روزہ مہم، جس میں گروپ نے دنیا بھر میں 110 سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ بڑے پیمانے پر اموات کا سبب بننے والے حملے کیے گئے۔ داعش نے پاکستان کے حالیہ انتخابات کے دوران حملوں کا دعویٰ بھی کیا۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد سے داعش نے دہشت گردی کے لیے غیر معروف ٹرانزٹ مراکز کو کام میں لاتے ہوئے دور دراز شاخوں کے درمیان رابطے، رقوم اور گولہ بارود کی منتقلی کے جدید ترین ذرائع تیار کیے۔

شدت پسندوں نے غزہ کے بحران کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اور وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم سے ناراض لوگوں سے اپنی صفوں میں شامل ہونے کی اپیل کر رہے ہیں۔ بچوں کی مسخ شدہ لاشوں، بکھرے ہوئے خاندانوں اور تباہ حال شہروں کی تصاویر بھرتی کے لیے بہترین چارہ ہیں۔ امریکہ کے قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ایورل ہینز نے خبردار کیا ہے کہ ’غزہ تنازع دہشت گردی کے معاملے میں نسلوں کو متاثر کرے گا۔‘

اس کے باوجود امریکہ اور اسرائیل نے یہ سبق نہیں سیکھا کہ دہشت گرد تنظیمیں جنگی جرائم اور مظالم کا لازمی طور پر فائدہ اٹھائیں گی۔ غزہ میں اموات کی تعداد میں اضافے کے بعد برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک کی جانب سے اسرائیل کا ساتھ دینے جیسے مغربی ملکوں کے پیغامات پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے تحفہ ہیں۔

حالیہ برسوں میں داعش اور القاعدہ کے دائرے میں توسیع کے لیے سب سے زرخیز افریقی علاقے رہے جہاں 2023 کے دوران ان تنظیموں نے 86 فیصد حملے کیے۔ صومالیہ میں الشباب کے مسلسل حملوں کے ساتھ ساتھ، 2024 کے اوائل میں شمال مشرقی موزمبیق میں انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ جمہوریہ کانگو میں مسیحی شہریوں پر حملوں میں اضافہ ہوا اور چاڈ جھیل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز پر درجنوں حملے ہوئے۔

ان تنظیموں کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ساحل کا علاقہ رہا ہے، جہاں فوجی بغاوتوں کی لہر نے ایسی حکومتیں قائم کیں جنہوں نے مغربی افواج کو ملک بدر کر کے روس کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے۔ ویگنر گروپ کی افواج کے استعمال نے بظاہر اس مسئلے کو مزید سنگین بنایا۔ القاعدہ نے ان حکومتوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے شہریوں کے فوج کے ہاتھوں قتل عام کا فائدہ اٹھایا۔

2023 کے آخر میں جب اقوام متحدہ کی فوج شمالی مالی سے چلی گئی تو مذہبی انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں نے پیدا ہونے والا خلا پُر کیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2023 میں عالمی سطح پر دہشت گردی میں ہونے والی اموات میں سے ایک چوتھائی صرف برکینا فاسو میں ہوئیں۔ نائجر، اپنی فوجی بغاوت کے بعد، داعش نے فوجی اہداف پر کئی بہیمانہ حملے کیے جن میں بڑے پیمانے پر اہلکار جان سے گئے۔

شام اور عراق میں داعش کو کبھی بھی یقینی ’شکست‘ نہیں دی گئی تاہم یہ قاتل گروپ ماضی میں لگنے والے بڑے  دھچکوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ چوں کہ ایران اور اسرائیل شام میں عدم استحکام کو ہوا دے رہے ہیں اس لیے داعش کے پھلنے پھولنے کی بہترین فضا موجود ہے، جو عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ بڑے حراستی مراکز پر تازہ حملوں کے لیے خود کو تیار کریں جہاں دہشت گردی کے ملزم اور ان کے اہل خانہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ قیدیوں کے بڑے پیمانے پر جیل سے فرار کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو اپنی صفیں دوبارہ مضبوط بنانے کا بہترین موقع ملے گا۔

جیسا کہ ہم نے 2014  میں دیکھا کہ انتہا پسند گروپوں کی افرادی قوت، دولت اور جنگی تیاریوں میں تیزی سے، تقریباً راتوں رات اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے فلسطین جیسے جذباتی مسائل کو مخصوص مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے حامیوں کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی رہنما جو ایک وقت میں ایک سے زیادہ خارجہ پالیسی کے بحران سے نمٹنے سے قاصر نظر آتے ہیں انہیں فوری طور پر دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں سنجیدہ ہونا ہو گا۔

 خفیہ اداروں کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ مستقبل کی سازشوں کو روکنے کے لیے داخلی سطح پر نگرانی میں اضافہ کریں۔ دہشت گردوں کو ٹیلی گرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا آزادانہ استعمال کرنے سے روکا جانا چاہیے۔

شام، یمن، مالی، صومالیہ، لیبیا اور افغانستان جیسی ناکام ریاستوں میں وسیع پیمانے پر موجود غیر منظم مقامات کو دوبارہ عالمی دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور انہیں عملی شکل دینے لیے پناہ گاہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ غزہ میں قتل عام کو فوری طور پر روکا جائے۔

اگر مہذب دنیا اور عالمی تنظیمیں کرہ ارض کے غریب ترین ممالک میں استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کا اپنا فرض پورا کرنے میں بری طرح ناکام نہ ہوتیں تو دہشت گرد گروہوں کے پاس قدم جمانے کا کوئی راستہ نہ بچتا۔

 خون چوسنے والی جونکوں کی طرح داعش جیسی تنظیمیں پھلتی پھولتی ہیں اور دنیا میں پہلے سے موجود برائی اور عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ وہ ہمیں مجبور کرتی کہ ہم امن، انصاف اور انسانی اقدار کو فروغ دینے کے لیے مسلسل محنت کریں۔

بارعہ علم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں اور متعدد سربراہان مملکت کے انٹرویو کر چکی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر