وٹس ایپ پر منائی جانے والی عید

وٹس ایپ پر سوکھی مبارک بادیں مجھے بالکل پسند نہیں۔ میر تقی میرؔ نے کیا عمدہ شعر کہا کہ ’کس منہ سے کہتے ہو مجھے عید مبارک، تم آئے؟ افطاری بھیجی؟ عیدی دی مجھے؟‘

تین مئی، 2022 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر لاہور کی بادشاہی مسجد میں خواتین ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہوئے(اے ایف پی)

ایک زمانہ تھا جب لوگ عید کی مبارک باد دینے کے لیے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر جایا کرتے تھے، ساتھ میں کیک یا مٹھائی لے جاتے تھے، بچوں کو عیدی دیتے تھے۔

میزبان بھی لذیذ کھانوں سے ہر آنے جانے والے کی تواضع کرتے۔ مگر جب سے انٹرنیٹ آیا ہے یار لوگ گھر بیٹھے ہی ایک دوسرے کو سوکھی عید مبارکیں بھیج دیتے ہیں۔

وٹس ایپ پر کیک کی ایموجی تلاش کی اور  کلک کر کے بھیج دی، اللہ اللہ خیر سلہ۔

یہ سوکھی مبارک بادیں مجھے بالکل پسند نہیں۔ میر تقی میرؔ نے ایسے ہی موقعے کے لیے کیا عمدہ شعر کہا کہ ’کس منہ سے کہتے ہو مجھے عید مبارک، تم آئے؟ افطاری بھیجی؟ عیدی دی مجھے؟‘

میں نے یہ شعر اپنے ایک عالم فاضل دوست کو سنایا تو اُس نے مجھے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ پہلے مجھے تمہاری جہالت کے بارے میں  شک تھا مگر اب یقین ہوگیا ہے کہ تم ہائر ایجوکیشن کمیشن میں افسر ہو۔

میں نے کہا جانِ من، غصہ کیوں کرتے ہو، غصے کے بارے میں مولانا رومی کا قول ہے کہ غصے کی حالت میں کبھی اپنے درزی سے بات نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ چاند رات کو تمہارا شلوار کرتا خراب کر دے۔

اس سے پہلے کہ میرا دوست مجھے واقعی کوئی چیز اٹھا کر مار دیتا، میں نے موضوع بدل دیا۔

میں نے جب یہ کالم لکھنا شروع کیا تھا تو رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس جاری تھا، ابھی ابھی وہ اجلاس ختم ہوا ہے اور عید کا اعلان کر دیا گیا۔

ویسے تو یہ اعلان یوں بھی کیا جا سکتا تھا کہ ’خواتین و حضرات چاند نظر آ گیا ہے، کل عید ہو گی ’لیکن ہم چونکہ سادہ باتوں کو پیچیدہ بنانے کے چمپیئن ہیں اس لیے عید کی رویت کو بھی مسئلہ بنا لیا ہے۔

گذشتہ دنوں کسی نے مجھے ایک کیلنڈر بھیجا جو 1401 ہجری سے 1500 ہجری تک تھا یعنی 1981 عیسوی تا 2077 عیسوی۔

اس کیلنڈر میں ہر سال کے سامنے درج تھا کہ پاک و ہند میں عید کس دن ہوگی، 2024 عیسوی کی عید کے آگے 10 اپریل بروز بدھ لکھا تھا۔

میں نہیں جانتا کہ یہ کیلنڈر کس مردِ عاقل نے بنایا، مگر کمال کی چیز ہے۔ ایک اور بات جس پر نہایت اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اِس مرتبہ قوم ایک ہی عید منائےگی۔

بہت اچھی بات ہے مگر دین میں ایسی کوئی بندش نہیں۔ 1400 سال پہلے اِس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا کہ عرب کے تمام شہروں میں ایک ساتھ عید منائی جائے۔

مدینہ میں لوگوں کو جب چاند نظر آتا تھاوہ عید منا لیتے تھے، اسی طرح باقی شہروں کے لوگ بھی چاند دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیا کرتے تھے۔

مجھے تو چاند دیکھنے کے لیے دور بینوں کا سہارا لینا بالکل مناسب نہیں لگتا، کیا ہی اچھا ہو اگر ٹی وی سکرین سے چمٹے رہنے کی بجائے پہلے کی طرح لوگ گھروں کی چھتوں پر جا کر چاند دیکھیں اور عید کا اعلان مقامی مسجد سے کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور اِس بات میں بھی کوئی حرج نہیں اگر کسی جگہ عید ایک دن پہلے یا بعد میں منالی جائے۔ آخر عید تین چار دن تک جاری رہتی ہے، ایک دن بعد ختم تو نہیں ہو جاتی۔

سچ پوچھیں تو عید کی حقیقی خوشی صرف روزے دار کو ہوتی ہے ، باقی لوگ تو محض ’شامل واجا‘ ہیں۔

آخری عشرے تک روزے دار بیچارہ ہلکان ہو جاتا ہے، اگر اُس سے پوچھا جائے کہ روزے کیسے جا رہے ہیں تو وہ بیچارہ جواب میں فقط الحمد اللہ کہہ کر چُپ ہو جاتا ہے۔

لیکن لوگ بھی بڑے ظالم ہیں، شوگر کے مریض سے بھی یہی سوال پوچھتے ہیں۔میرے ایک دوست کو شوگر ہے، اُس سے کسی باریش بزرگوار  نے پوچھا کہ محترم آپ کے روزے کیسے جا رہے ہیں تو دوست نے اطمینان سے جواب دیا :’بہترین۔ میں تو ایک دن میں تین تین روزے رکھتا ہوں۔‘

اس پر بزرگوار نے تحسین آمیز نظروں سے اسے دیکھا اور پھر حیرت سے سوال کیا کہ ’نوجوان، تم ایک دن میں تین روزے کیسے رکھ لیتے ہو؟‘

’دراصل میں پہلا روزہ سحری کے وقت رکھتا ہوں، اُس کے بعد گیارہ بجے افطاری کر کے ساتھ ہی دوسرا روزہ رکھ لیتا ہوں اور پھر سہ پہر کو افطاری اور یوں شام تک تین روزے ہو ہی جاتے ہیں ،کبھی زیادہ ہمت ہو تو چار بھی رکھ لیتا ہوں۔‘

اُس بزرگ نے نوجوان کو ایسے دیکھا جیسے کچا ہی کھا جائیں گے۔ سننے میں آیا کہ بزرگوار کی خواہش  تھی کہ اپنی بڑی بیٹی کو، جو گذشتہ سال بیوہ ہو گئی تھی، میرے دوست کے عقد ثانی میں دے دیں، مگر اِس گفتگو کے بعد انہوں نے ارادہ بدل دیا۔

 مرزا غالب نے اسی کیفیت کو اپنے ایک خط میں یوں بیان کیا ہے: ’دھوپ بہت تیز ہے۔ روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں۔ کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ یہاں کے لوگ عجب فہم رکھتے ہیں۔ میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تُو روزہ نہیں رکھتا۔ یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور بات ہے۔‘

تو جناب ، جنہوں نے پورے روزے رکھے انہیں عید مبارک اور جنہوں نے روزے بہلائے انہیں بھی عید مبارک۔ لیکن خیال رہے  کہ یہ سوکھی مبارک باد  نہیں۔

اس عید مبارک تک پہنچتے پہنچتے مجھے کالم لکھنے کی مشقت اٹھانی پڑی ہے۔ تاہم آپ کو سوکھی عید مبارک بھیجنے کی اجازت نہیں۔ بھلا وہ عید ہی کیا جو وٹس ایپ پر منائی جائے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ