امریکہ کی پاکستان پر حالیہ پابندیوں کے بعد کشیدگی کی تردید

امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر معاونت دینے والی کمپنیوں پر پابندی کے نتیجے میں کسی قسم کی کشیدگی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان خطے میں اس کا اہم اتحادی ہے اور اس تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل 25 اپریل 2024 کو واشنگٹن ڈی سی میں پریس بریفنگ کے دوران (سکرین گریب/ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یوٹیوب چینل)

امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر معاونت فراہم کرنے والی کمپنیوں پر پابندی کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کسی قسم کی کشیدگی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد خطے میں اس کا اہم اتحادی ہے اور اس تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے جمعرات کو ایک پریس بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ ’پابندیوں کے بعد دونوں ممالک میں کچھ کشیدگی دیکھی جا رہی ہے اور پاکستانی حکومت کے عہدیداروں نے انتہائی سخت بیانات بھی دیے ہیں، کیا اس وقت امریکہ اور پاکستان کے درمیان کوئی (کشیدگی) چل رہی ہے؟‘

تاہم نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان خطے میں ہمارے سب سے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ حکومت پاکستان کے ساتھ ہمارا بہت سا تعاون جاری ہے، خاص طور پر سکیورٹی اور تجارت کے شعبے میں۔‘

پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران محکمہ خارجہ کے ارکان سے مشاورت کا حوالہ دیتے ہوئے ویدانت پٹیل نے مزید کہا کہ ’یہ ایک مضبوط رشتہ ہے اور ہم اسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔‘

رواں ماہ 19 اپریل کو امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی، جن میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا: ’امریکہ (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کے عدم پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس کو روک کر عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت آج ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذمہ دار چار اداروں کو نامزد کیا جا رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 اپریل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے کہا تھا کہ ’ہم نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اس کی ترسیل کے ذرائع تھے۔‘

ویدانت پٹیل کا کہنا تھا: ’یہ چین اور بیلاروس میں مقیم ادارے تھے، ہم نے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات، قابل اطلاق اشیا کی فراہمی دیکھی ہے۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اکتوبر 2023 میں ہم نے چین کے تین اداروں پر پابندیاں لگائی تھیں جنہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کی سپلائی کے لیے کام کیا تھا۔ ہم خطرناک ہتھیار پھیلانے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرتے رہیں گے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔‘

تاہم پاکستان نے اپنے ردعمل میں ’برآمدات پر کنٹرول کے سیاسی استعمال‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے لگائی گئیں۔  

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’کوئی ثبوت دیے بغیر ماضی میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام سے روابط کے الزامات کے تحت کمپنیوں کی ایسی ہی نشاندہی کی گئی۔‘

مزید کہا گیا کہ ’ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں، جب صرف شک کی بنیاد پر (کمپنیوں کی) فہرست بنائی گئی یا یہاں تک کہ جب بیان کردہ سامان کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھا لیکن اسے وسیع تر دفعات کے تحت حساس سمجھا گیا۔

اپنے بیان میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا: ’ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ ایسی اشیا کو قانونی طور پر سول تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، اس لیے برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنا ضروری ہے۔

’سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی یقینی بنانے کی خاطر معروضی نظام کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان