مريم نواز کے یونیفارم پہننے پر پولیس کا اجازت نامہ کیسے جاری ہوا؟

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے پولیس یونیفارم پہننے کا معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں پولیس یونیفارم پہننے کی اجازت سے متعلق قانونی جواز پیش کیا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز 25 اپریل 2024 کو پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شریک ہوئیں (مسلم لیگ ن ڈیجیٹیل ایکس اکاؤنٹ)

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے پولیس یونیفارم پہن کر پاسنگ آؤٹ پریڈ تقریب میں شرکت اور اجلاسوں کی صدارت پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ سیاسی مخالفین اسے دکھاوا اور غیر قانونی قرار دے رہے ہیں جبکہ ان کے حامی اس اقدام کو سراہتے نظر آرہے ہیں۔

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں وزیراعلیٰ اور گورنر پنجاب کو پولیس تقریب کے دوران علامتی طور پر پولیس یونیفارم پہننے کی اجازت سے متعلق قانونی جواز پیش کیا گیا۔

لیکن اپوزیشن کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پولیس نے یہ نوٹیفکیشن اس سال 30 جنوری کی پرانی تاریخ ڈال کر اب کیوں جاری کیا؟

جس کے حوالے سے پنجاب پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ قانون رواں سال 30 جنوری کو بن چکا ہے اور نوٹیفکیشن بھی پہلے کا ہی جاری شدہ اور پولیس ریکارڈ میں موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان پنجاب پولیس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب پولیس کا یونیفارم پہننے کے قانون میں پہلے ہی ترمیم ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے 30 جنوری 2024 کو گورنر پنجاب کے دستخط سے قانون میں ترمیم ہو چکی ہے، جس میں وزیراعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کو پولیس پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران اعزازی طور پر یونیفارم پہننے کی قانونی اجازت ہے۔ یہ نوٹیفکیشن 30 جنوری کا ہی ہے اور پولیس ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔‘

تاہم اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ تنقید کے بعد پولیس کی جانب سے پرانی تاریخوں میں قانونی اجازت نامہ جاری کروایا گیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’قانون اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بھی حکومتی شخصیت کسی ریاستی ادارے کی وردی پہن کر سیاست چمکائے۔ پنجاب حکومت نے وزیراعلیٰ مریم نواز پر تنقید کے بعد پرانی تاریخوں میں قانونی اجازت نامہ بنا کر پولیس سے جاری کروایا جو ایک غیر قانونی اقدام ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس معاملے کو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے ایوان میں بھی اٹھایا ہے اور ہم اس اقدام کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ اس غیر قانونی اقدام پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘

بقول شعیب شاہین: ’وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی نہ ہونے کے باعث ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کے لیے پولیس یونیفارم کا استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف پاسنگ آؤٹ پریڈ بلکہ سرکاری اجلاسوں کی صدارت اور ملاقاتوں میں بھی پولیس یونیفارم ہی پہن رکھا ہے۔‘

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جمعرات کو پولیس اہلکاروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم میں شرکت کی تھی، جہاں انہوں نے پریڈ کا معائنہ کیا اور پھر پاس آؤٹ ہونے والے اہلکاروں کے والدین سے ملیں اور وردی میں ہی انہوں نے شرکا سے خطاب کیا۔

بعدازاں وہ پولیس وردی میں ہی سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان اور اراکین اسمبلی سے ملنے اسمبلی پہنچیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایوان وزیراعلیٰ میں بھی اسی یونیفارم کے ساتھ اجلاسوں کی صدارت کی۔

کسی وزیراعلیٰ کی جانب سے پولیس یونیفارم پہننے کی کوئی روایت اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی، لیکن کئی قومی کھلاڑی اعزازی طور پر پولیس یونیفارم پہن چکے ہیں۔

اسلام آباد پولیس حکام نے 23 مارچ 2023 کو قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاری حارث رؤف کو اعزازی طور پر پولیس کا یونیفارم پہنایا تھا۔

کرکٹر شاداب خان نے بھی اعزای طور پر 20 دسمبر 2023 کو پنجاب پولیس کے ڈی ایس پی کا یونیفارم اعزازی طور پر پہنا۔

اسی طرح چار جولائی 2022 کو شاہین شاہ آفریدی نے اعزازی طور پر خیبرپختونخوا پولیس کا یونیفارم پہنا تھا۔

کیا مریم نواز پر تنقید کی وجہ ان کا خاتون ہونا ہے؟

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ویمن سٹرگل اینڈ امپاورمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بشریٰ خالق کہتی ہیں کہ ’مریم نواز کے لیے بطور خاتون وزیراعلیٰ سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے؟ وہ خواتین کے لیے کیا کام کر رہی ہیں؟ انہوں نے پہلے ہی دن کہا کہ خواتین کو ہراساں نہ کیا جائے، یہ میری ریڈ لائن ہے۔ اسی طرح گھریلو ملازمین اور خواتین کے تحفظ کی بات حوصلہ افزا ہے۔ جہاں تک پولیس کی وردی پہننے کی بات ہے تو انہوں نے یہ وردی علامتی طور پر پہنی جو خواتین اہلکاروں سے اظہار یکجہتی ہے۔‘

بشریٰ خالق کا مزید کہنا تھا: ’اگر وہ وردی نہ بھی پہنتیں تو ان کے الفاظ کا زیادہ اثر ہوتا۔ اس پر بحث غیر ضروری ہے۔ اہم یہ ہے کہ انہوں نے پولیس کے نظام کو کس طرح دیکھا ہے اور وہ اس کی بہتری کے لیے کیا کرنا چاہتی ہیں۔ خاص طور پر خواتین کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وہ کیا کرنا چاہتی ہیں، اس پر بات کریں۔ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر کنٹرول پانے کے لیے وہ کیا حکمت عملی اپنائیں گی۔

’یہ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے کپڑوں پر تو بحث کی جاتی ہے مگر ان کی کارکردگی پر بات نہیں کی جاتی۔ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا پر بھی کئی بار خواتین کے کپڑوں اور جوتوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ خاص طور پر اراکین اسمبلی کے کپڑے، جوتے یا بیگ کو نمایاں کیا جاتا ہے۔‘

بشریٰ خالق کے مطابق: ’وزیراعلیٰ پنجاب ہوں یا کوئی بھی خاتون عہدیدار، بجائے ان کی ڈریسنگ یا فیشن پر بحث کرنے کے، ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیے کیونکہ کپڑے جوتوں پر باتیں کرنا تو فضول سی بات ہے۔‘

پولیس کا یونیفارم پہننے پر وزیراعلیٰ مریم نواز کے خلاف ‏مقدمہ درج کرنے کے لیے وقار علی شاہ نامی شہری نے لاہور کی سیشن عدالت میں درخواست بھی دائر کی، جہاں عدالت نے 29 اپریل تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے فرنٹ ڈیسک کی رپورٹ طلب کر لی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان