دل مانے نہ ۔۔۔ بے بس اولاد

اس کہانی میں ایک اچھا نکتہ یہ ہے کہ جب والدین پالتے ہوئے کسی بچے کو زیادہ اہمیت دے دیتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے اس بچے کو اپنے بہن بھائیوں سے الگ کر رہے ہوتے ہیں۔

ڈراما ’دل مانے نہ‘ کی مصنفہ سیما مناف ہیں اور  ڈائیریکٹر امین اقبال ہیں۔ اس ڈرامے کو گرین اینٹرٹینمنٹ سے نشر ہو رہا ہے (سکرین گریب/ گرین انٹرٹینمنٹ/ یوٹیوب)

ایک انسان مروجہ پیمانے سے ہٹ کر اگر کوئی اچھا قدم اٹھا کر مثال بننے کی کوشش کرتا بھی ہے تو یہ اچھائی مستقبل میں اس کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے کیونکہ سماج ابھی ناپختہ ہے، ابھی تک اس سماج میں مثال بننا عبرت بننے کے ہی مترادف ہے۔

ایسی ہی کہانی  ڈراما ’دل مانے نہ‘ کی ہے جس میں ڈاکٹر شبانہ ایک بچی کو گود لے لیتی ہے۔ اس بچی کو ہسپتال میں کوئی عورت چھوڑ جاتی ہے۔

وہ اسے قبول کر لیتی ہے کہ اس وقت تک اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کے بعد اس کی اپنی دو بچیاں منزہ اور فاقیہ بھی پیدا ہو جاتی ہیں لیکن ڈاکٹر شبانہ اپنی اس لے پالک بچی ہانیہ سے زیادہ محبت کرتی ہے۔

شاید اس کے لاشعور میں کوئی احساس جرم، کوئی ملال یا کوئی ڈر ہے جس کو وہ اپنے رویے سے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہی خاص و مختلف رویہ اس کی اپنی اولاد کو محسوس ہونے لگتا ہے۔

منزہ کو تو ماں سے کوئی گلہ نہیں ہے، اپنی بہن سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے کہ اس کی ماں ہانیہ کو زیادہ پیار کیوں کرتی ہے لیکن فاقیہ کو گلہ ہے کہ ہر گھر میں چھوٹا بچہ لاڈلا ہوتا ہے مگر یہاں بڑا بچہ لاڈلا و چہیتا ہے۔

فاروق کو بھی اپنی بیوی کی یہ تفریق اچھی نہیں لگتی مگر وہ مجبور ہے کہ اس نے نوکری چھوڑ کر سب پیسہ کاروبار میں لگا دیا، ناتجربہ کاری سے کاوبار ڈوب گیا، اب ڈاکٹر شبانہ کی محنت کا بنایا گھر گروی رکھنے کا پلان کر رہا ہے۔

گھر کی مکمل ذمہ داری ڈاکٹر شبانہ پہ ہے۔ وہ اسے یہ بات بار بار جتانے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ بے روزگار مرد کڑوا ہوا ہی کرتا ہے، وہ ساتھی کی سب اچھائیوں میں خامی تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔

حالات و واقعات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ سچ کہیں اور کسی اور سچ میں چھپا ہوا ہے۔ یہ صرف ایک لے پالک بچی کی کہانی نہیں ہے، کہانی کے اندر کوئی اور بھی کہانی سانس لے رہی ہے۔

ایک طرف گھر کا ماحول ہے بہنوں کے آپسی ناہموار تعلق ہیں۔ دوسری طرف ہانیہ کے تایا زاد حمزہ کو اس سے محبت ہے۔ وہ بھی حمزہ کو پسند کرتی ہے لیکن اس کی تائی امی کو ہانیہ بالکل پسند نہیں ہے۔

وہ اپنے بیٹے کو کہتی ہے کہ چچا کی باقی دونوں بیٹیوں میں سے کوئی بیٹی پسند کر لے، یونہی ایک پڑوسی مغیز کو بھی ہانیہ پسند ہے۔

ڈاکٹر شبانہ کی ایک پرانی کولیگ ڈاکٹر نائلہ اس کو شزا کی شادی پہ ملتی ہے۔ اس کو بھی ہانیہ اپنے بیٹے کے لیے پسند آجاتی ہےاور بیٹا بھی راضی راضی لگتا ہے۔

ڈاکٹر نائلہ شبانہ سے اس بچی کے بارے میں پوچھتی ہے جسے اس نے بہت پہلے گود لیا تھا، وہ ٹال دیتی ہے کہ وہ بچی تو کوئی بے اولاد جوڑا لے گیا تھا گویا ڈاکٹر شبانہ کے ماضی کے سب دوست، رشتہ دار ہانیہ کی حقیقت سے واقف ہیں اسی لیے ان میں سے کسی کو ہانیہ پسند نہیں ہے نہ شاید قبول ہے۔

یہی سبب ہے کہ ہانیہ کو باپ کی شفقت بھی نہیں مل سکی جس کی وہ حق دار تھی۔ چھوٹی بہن کا پیار بھی نہیں مل سکا۔

ہانیہ کی وجہ سے دیوارانی جیٹھانی میں ان بن بھی ہو جاتی ہے مگر دونوں گھروں کی اولادوں میں کزن شپ بہت اچھی ہے۔ وہ دونوں اپنے بڑوں کو بار بار ملانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہ پہلو آج کل کے مشکل رشتوں کے حوالے سے بہت مثبت ہے۔

یہ تو تھی کہانی کی بات جس کی جزویات نے ابھی کھلنا ہے۔ ہانیہ نے کہانی میں ابھی تنہا ہونا ہے۔ زندگی کی سفاکی نے ابھی سر اٹھا کر اپنا آپ بتانا ہے۔

اتنے اہم موضوع کو جہاں تحریر میں اچھا برتا گیا ہے وہاں کاسٹ کی کمی بہت شدید ہے۔ دو مرکزی کردار ہی کمزور ہیں۔ ہانیہ اور حمزہ کا کردار۔

ایک لڑکی جو بہت حسین، بہت دلفریب حسین ہے ہر دل کو پہلی نظر میں چھو جانے والی دکھائی گئی ہے۔ وہ اپنے کردار میں فٹ نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حمزہ بھی بطور ہیرو اپنے کردار میں مناسب نہیں لگ رہے۔ یہ عمر کا ایک ایسا حصہ دکھایا گیا ہے جہاں جوانی طوفان کی طرح اٹھان بھرتی ہے، یہ اٹھان دونوں میں دکھائی نہیں دے رہی۔ میچور تھکے تھکے سے ہیرو ہروئین رومانٹک سین میں بالکل نہیں جچ رہے۔

اس کی نسبت ثانیہ سعید سکرین پہ چھائی ہوئی ہیں۔ ان کی موجودگی میں اتنی ہی بڑی کاسٹ کی ضرورت تھی۔ یہ پہلو ایک منفرد کہانی کو بھی دیکھنے میں بور کر رہا ہے۔

کہانی میں یہ انفرادیت ضرور ہے کہ ایک لڑکی کی کہانی پیش کی گئی ہے جس کو اس کی ماں ہسپتال چھوڑ گئی تھی اور پالنے والی نے اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر پالا مگر اس کو نصیب نہ دے سکی۔

اس کے نصیب میں محبت و شفقت نہ لکھ سکی۔ اس نے اپنی اولاد کو بھی نہیں بتایا کہ ان کی بڑی بہن ان کی بہن نہیں ہے، نہ وہ یہ بات ہانیہ کو بتا سکی ہے کہ وہ ایک لے پالک اولاد ہے۔

اس کہانی میں ایک اچھا نکتہ یہ ہے کہ جب والدین پالتے ہوئے کسی بچے کو زیادہ اہمیت دے دیتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے اس بچے کو اپنے بہن بھائیوں سے الگ کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں چہیتا بچہ اپنا بھی ہو تو اکیلا رہ جاتا ہے، اس لیے اولاد کو برابر پیار اور توجہ دینا ضروری ہے تاکہ وہ آپس میں بھی متحد رہ سکیں۔

ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ڈرامے میں تمام رشتے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود مضبوط ہیں۔ معاشی مستحکم خواتین کے الگ مسائل ہوتے ہیں، ڈراما ان کو بھی بہت سنجیدگی اور سلجھے ہوئے انداز میں پیش کر رہا ہے۔

میوزک اچھا ہے۔ عکس بندی بھی اچھی ہے۔ مصنفہ سیما مناف ہیں، ڈائیریکٹر امین اقبال ہیں، گرین اینٹرٹینمنٹ سے ڈراما نشر ہو رہا ہے۔

ڈراما کے حوالے سے ہم نے مصنفہ سیما مناف سے پوچھا کہ اس موضوع کا انتخاب انہوں نے کیوں کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ میر ا ناولٹ تھا جس کو میں نے ڈرامے میں ڈھالا ہے۔ اس کہانی کا مقصد تھا کہ وہ لڑکیاں جو چھپ کر شادی کر لیتی ہیں وقتی طور پہ کیا گیا جذباتی فیصلہ ان کے مستقبل میں مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے۔‘

سیما مناف کہتی ہیں کہ ’شادی کے بعد بچے پیدا ہو جائیں تو ان کے  لیے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کو سماج اور افراد ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس طرح دو نسلیں ذہنی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ ڈراما انہیں ذہنی اور سماجی مسائل پہ مبنی ہے۔ ابھی کہانی کا آغاز ہوا ہے اس میں ابھی زندگی کی طرح بہت سے اتار چڑھاؤ آنے ہیں۔‘

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی