سینیٹ کے غیر فعال ہونے کے آئینی نتائج

اہم ترین آئینی نکتہ یہ ہے کہ 12 مارچ سے نو اپریل تک کے 27 دن سینیٹ کی آئینی و قانونی تاریخ سے خارج ہو گئے۔ چھ برس بعد سینیٹ کا کیلنڈر 12 مارچ سے نہیں نو اپریل سے شروع ہوا کرے گا۔

سنیٹ کی عمارت کا اندرونی منظر (تصویر: بشکریہ سینیٹ آف پاکستان آفیشل فیس بک پیج)

سینیٹ کی تشکیل 1973 کے دستور کے نافذ ہونے کے بعد سینیٹ ایکٹ 1974 کے تحت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں مکمل ہوئی تھی۔ ابتدا میں سینیٹ کے ارکان کی تعداد 45 تھی اور ہر صوبے سے دس دس ارکان کا کوٹہ مقرر کیا گیا تھا، جب کہ فاٹا سے تین اور فیڈرل ایریا سے ایک رکن مقرر کیا گیا۔

بعد ازاں مارچ 1977 کے انتخابات کے بعد سینیٹ کی نشستیں 63 کر دی گئیں جبکہ 1985 کے الیکشن کے بعد غیر جماعتی پارلیمنٹ میں بل کی صورت میں آئین میں ترامیم کرتے ہوئے اس کی تعداد 87 کر دی گئی اور ٹیکنو کریٹس اور علما کی نشستوں کا کوٹا بھی شامل کر دیا گیا۔

12 اکتوبر 1999 کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ادارے معطل کر دیے گئے اور پھر ان دونوں اداروں کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، جسے معطل شدہ دستور پاکستان میں ہی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت 12 مارچ 2003 سے اس نے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا اور 21 برس کی آئینی رکاوٹ کے بغیر سینیٹ 12 مارچ 2024 تک فعال رہی۔

آئین کے مطابق نصف ارکانِ سینیٹ کو 12 مارچ 2024 کو حلف اٹھانا تھا، لیکن ایسا ناگزیر صورت حال کے پیش نظر نہ ہو سکا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آٹھ فروری کو مکمل ہو گئے۔

چونکہ نصف ارکان سینیٹ 11 مارچ 2024 کی رات کو ریٹائر ہو گئے تھے اور قانونی طور پر سینیٹ کے الیکشن 11 مارچ 2024 تک مکمل ہو جانے تھے لیکن درمیان میں نو مارچ کو صدر مملکت کا انتخاب بھی آئین کے آرٹیکل 44 کے مطابق لازمی ہونا تھا، لہٰذا صدر کے انتخاب کو فوقیت دینا آئینی تقاضہ تھا اور 21 سال بعد یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ سینیٹ کے انتخابات نہ ہو سکے اور پاکستان کا ایوان بالا 12 مارچ 2024 کے بعد غیرفعال اور مفلوج ہو کر رہ گیا۔

چونکہ پاکستان میں آئین و دستور کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور آئین چونکہ 1973 میں انتہائی عجلت میں نافذ کیا گیا تھا، مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد آئین ساز اسمبلی کے ارکان کے ذہن بھی مفلوج ہو چکے تھے، عوام سانحہ مشرقی پاکستان کے غم میں نڈھال تھے اور میڈیا نظریاتی طور پر تقسیم ہو چکا تھا، لہٰذا آئین بناتے ہوئے اس میں سقم برقرار رہا اور اس کی تشریح ہماری اعلیٰ عدالتیں اپنے مخصوص ذہن کے مطابق کرتی رہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئینی طور پر سینیٹ اور صدارتی انتخابات بھی کروانے تھے اور دونوں کی آئینی اہمیت برابر اور یکساں تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر مملکت کا انتخابات مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہی کروایا جا سکتا تھا، جس کے بعد 12 مارچ 2024 کو کامیاب ارکان حلف اٹھاتے اور پھر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب مکمل ہو جاتا تو اب جو بحران سامنے کھڑا ہے، اس کی نوبت نہ آتی جبکہ صدر مملکت کے انتخابات میں 15 دن کی تاخیر کے لیے آئین کے آرٹیکل 254 کے ذریعے استثنیٰ حاصل کیا جا سکتا تھا۔

ایوانِ بالا 12 مارچ سے نو اپریل تک مسلسل 27 دن غیر فعال رہا، جب کہ آئین کے مطابق سینیٹ ہمیشہ موجود اور متحرک رہتی ہے، اس کا ایک دن کے لیے بھی غیرفعال ہونا دستوری تقاضوں کے منافی ہے۔

سینیٹ کے ارکان چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ معمول یہ ہے کہ ہر تین سال بعد نصف ارکان، جن کی چھ سالہ مدت پوری ہو چکی ہوتی ہے، ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ اتنے ہی نئے ارکان منتخب ہو کر سینیٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے باوجود سینیٹ برقرار رہتی ہے۔

اہم ترین آئینی نکتہ یہ ہے کہ 12 مارچ سے نو اپریل تک کے 27 دن سینیٹ کی آئینی و قانونی تاریخ سے خارج ہو گئے۔ چھ برس بعد سینیٹ کا کیلنڈر 12 مارچ سے نہیں نو اپریل سے شروع ہوا کرے گا۔

سینیٹ کے 48 ارکان کا انتخاب دو اپریل کو کروانا پڑا، جن کی مدت معیاد اب نو اپریل سے شروع ہو گی اور باقی ماندہ سینیٹر جو اپنی تین سالہ مدت 12 مارچ کو مکمل کر لیں گے ان کی ریٹائرمنٹ تو 12 مارچ کو ہو جائے گی اور 48 نشستوں کا انتخاب بھی مکمل ہو جائے گا جبکہ جنہوں نے نو اپریل کو حلف اٹھایا ہے ان کی چھ سالہ مدت کے اختتام پر الیکشن مرحلہ وار ہوں گے۔

اس باریک آئینی بحران پر کسی نے بھی غور و غوض نہیں کیا اور مصلحت پسندی کا وطیرہ سامنے رکھا۔

اس کا واحد حل یہی ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے 27 دن کے عرصے کو قانونی کوریج دیتے ہوئے اس عرصے کو 12 مارچ سے تصور کیا جائے اور جیسے کہ جنرل ضیا الحق کی آٹھویں ترامیم مارشل لا کے قوانین اور جنرل پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات کو کنڈیم کر دیا گیا تھا، اسی طرح 27 دن کے عرصے کو بھی حذف کر کے 12 مارچ کی تاریخ سے سینیٹ کے معاملات چلائے جائیں۔

ایسا ہونا ضروری ہے، دوسری صورت میں نو اپریل 2027 اور 12 مارچ 2027 کو نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے گا۔

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کو آئین کے آرٹیکل 59 اور 60 کے تحت جو حوالے دیے گئے ہیں، اس کی تشریح کرنا سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرے میں آتا ہے۔

ویسے بادی النظر میں ایوانِ بالا کا ہاؤس مکمل ہی تصور کیا جائے گا کیونکہ صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 12 سینیٹرز ایوان میں موجود تھے، جن کی مدت 12 مارچ 2027 تک برقرار ہے۔

اہم ترین آئینی نکتہ یہ ہے کہ 12 مارچ سے نو اپریل تک کے 27 دن سینیٹ کی آئینی و قانونی تاریخ سے خارج ہو گئے۔ چھ برس بعد سینیٹ کا کیلنڈر 12 مارچ سے نہیں نو اپریل سے شروع ہوا کرے گا۔

سینیٹ کے 11 ارکان کا انتخاب دو اپریل کو سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان آئینی تشریح کے فقدان کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے ہیں اور معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا کے 11 ارکان سینیٹ کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے تو ان کی مدت کا تعین ان کے حلف لینے سے شروع ہو گا اور چھ سال بعد جب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابات ہوں گے تو نیا آئینی بحران سامنے آئے گا۔ اب ان کی مدت کا تعین کیسے مکمل کیا جائے گا؟ اس طرح سینیٹ تین حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے گی۔

پہلا مرحلہ 12 مارچ 2027، دوسرا مرحلہ نو اپریل 2030 اور چوتھا مرحلہ 11 ارکان کے حلف اٹھانے کی تاریخ سے شروع ہو گا۔

سینیٹ جو آئینی و قانونی طور پر ایوانِ بالا کی حیثیت کا حامل ہے، آئینی وزڈم کے فقدان کی وجہ سے انتہائی متنازع اور غیر ضروری طور پر 2030 اور 2027 میں قانونی بحران کی زد میں آ جائے گا۔ آئینی اداروں کو اس صورت حال کا ادراک ہونا چاہیے تھا۔

 نگران سیٹ اپ میں وفاق کی سطح پر ایسی شخصیات کو پارلیمانی امور کے فرائض تفویض کیے گئے جو اس پارلیمانی امور سے نابلد تھے۔ ان کا آئین و قانون سے دور کا بھی تعلق نہ تھا، ان کی مہارت گری میڈیا کے اردگرد گھوم رہی تھی۔ نگران وزیراعظم بظاہر سینیٹر بھی رہے، صوبائی حکومت کے ترجمان اور مشیر بھی رہے لیکن ان کو سینیٹ کی باریکیوں کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔

میں نے پنجاب کی نگران حکومت میں آئین، الیکشن قوانین اور دیگر قانونی امور میں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی معاونت کی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دائرہ کار سے نکلتے ہوئے وفاقی حکومت کے اہم ترین وزرا کو بھی باخبر رکھا، لیکن انہوں نے بھی ان باریکیوں پر غور و غوض نہیں کیا۔

سینیٹ کے مستقبل قریب کے آئینی بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ آئین میں مجوزہ ترمیم کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس ابہام کے ازالے کے لیے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اس دورانیے کو پچھلی تاریخ یعنی 12 مارچ تک محدود کر دیا جائے اور درمیانی عرصے کو 12 مارچ سے منسلک کر دیا جائے۔

29  اپریل کو سپریم کورٹ میں چھ ججوں کا اپوزیشن جب سامنے آئے گا تو دیگر اہم ترین ایسے نکات بھی اٹھائے جائیں گے جس سے آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد فوائد حاصل کرنے والی اہم ترین شخصیات کا بھی ذکر سامنے آئے گا، جنہوں نے ریاست کے مفاد کو پس پشت رکھ کر الیکشن کمیشن کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا۔

سینیٹ کے غیر فعال ہونے کے آئینی نتائج کے حل کے لیے آئین میں 27ویں ترمیم کرنا پڑے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر